گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
تعلق ہوا اور اس کے بعد محبتیں بڑھتی چلی گئیں ۔ دعائیں ، شفقتیں بے پناہ بڑھتی چلی گئیں الحمدللہ! 2008 اکتوبر میں حضرت جی نے سلسلہ کے کام کے لیے ذمہ دار بنا دیا۔ بھئی! یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے۔ حضرت کی دعائیں ہیں ۔ کہاں دوکان کی سیٹ تھی، کہاں مسجد کا منبر۔ ابھی بھی دوکان پے بیٹھتا ہوں ، کاروبار کرتا ہوں ۔ نماز کا وقت ہوتا ہے تو مسجد چلا جاتا ہوں اور بیان کے لیے منبر پر بیٹھ جاتا ہوں ۔ یہ اللہ کا انعام ہے الحمدللہ!بازار والے لوگ اپنی چیز کی جب تعریف بیان کر رہے ہوتے ہیں تو اس وقت کسی دوسرے کی چیز کی برائی بھی بیان کر رہے ہوتے ہیں ۔ تو بھائی! اس کی کیا ضرورت ہے؟ آپ نے کسی چیز کی تعریف بیان کرنی ہے تو کیجیے، لیکن اس میں مبالغہ نہ کریں ۔ کسی دوسرے کی چیز کی برائی بیان نہ کریں ۔ بلکہ علماء نے فرمایا ہے کہ اس میں محتاط رہیں ۔ اگر محتاط رہیں گے تو قیامت کے دن پکڑ نہیں ہوگی۔ کیوں کہ قرآن پاک میں آتا ہے:مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَيْهِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌo (قٓ: 18)ترجمہ: ’’انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا، مگر اس پر ایک نگراں مقرر ہوتا ہے ہر وقت (لکھنے کے لیے) تیار‘‘۔جو جملہ تاجر ہو یا کوئی بھی ہو زبان سے نکالتا ہے، وہ لکھ لیا جاتا ہے۔ اگر مبالغہ کیا اور چرب زبانی سے کام لیا تو یہ چیز قیامت کے دن گھاٹے کا سبب بن جائے گی۔دھوکہ دینے والے کے لیے وعید تیسری بات کسی بھی چیز میں اگر کوئی عیب ہے، نقص ہے، خرابی ہے تو اسے بیان کرے۔ ایسا نہ ہو کہ بغیر بیان کیے چھپا کر دے۔ ہمارے بازاروں میں کتنے ہی دوکاندار ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ نیا خریدتے نہیں پرانا بیچتے ہیں ۔ کیا کہتے ہیں ؟ نیا _