گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
طرف جو مالی حقوق متوجہ تھے، اس میں انہوں نے کیا کیا تھا؟ اس وقت انہوں نے اس میں کوتاہی کی۔ یہی سمجھتے رہے کہ یہ مال میرا ہے۔ اور یہ بھی سمجھتے رہے کہ ہمیشہ میرے پاس ہی رہے گا۔ یہ مال نہ میرا ہے، نہ ہمیشہ میرے پاس رہے گا۔ یہ مال اللہ تعالیٰ کا ہے اور واپس چلے جانا ہے۔ہسپتال کے مالک کی رُوداد لاہور میں ایک صاحب کا ہسپتال خوب چلتا تھا، اور خوب اُن کی آمدنی اس سے ہوتی تھی۔ وہ صاحب ما شاء اللہ چالیس گھروں کی کفالت کرتے تھے۔ ہر مہینے چالیس گھروں کو راشن پہنچایا کرتے تھے۔ اور اللہ ربّ العزّت اس کی برکت سے ان کو خوب دے رہا تھا۔ الحمدللہ! کوئی کمی نہیں تھی۔ اللہ کی شان کہ ان صاحب کا انتقال ہوگیا۔ ان کی اولاد نے انتظام سنبھالا تو کہنے لگے کہ ابا تو پاگل تھا، اتنا سب دوسروں کو دے رہا تھا۔ اب جب زیرِ کفالت ان کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ اس سے اُن کا کام کم ہونا شروع ہوگیا۔ اِن مرحوم کی بیوہ نے ایک عالم کو بتایا کہ ہمارے گھر کا خرچہ اتنا تو آرہا ہے جتنی آج ہماری ضرورت ہوتی ہے، ہمارے خرچے تو پورے ہیں ، لیکن جو 40 گھروں کی میرے خاوند نے ذمہ داری لی ہوئی تھی وہ سارا کم ہوگیا ہے۔ اب وہ نہیں مل رہا۔ان عالم نے جواب دیا کہ وہ اب اللہ تعالیٰ نے کسی اور کی طرف بھیج دیا ہے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سب میرا آرہا ہے، وہ کسی اور کا اللہ بھیج رہے ہوتے ہیں ۔ آپ ڈاک پہنچاتے جائیں ، ڈاکیے کی Job لگی رہے گی۔ اچھا ڈاکیہ وہی ہوتا ہے کہ جب اس کو ڈاک دی جائے، وہ ہر جگہ ڈاک پہنچادے۔ محکمہ ڈاک اس کو برقرار رکھتا ہے۔ اور _