گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
ہو) اور اگر وہ (مقروض) آپ کو تحفہ میں ایک بوجھ بھوسہ دے، یا جَو دے، یا جانور کا چارہ دے ،تب بھی مت لینا اس لیے کہ وہ سود ہے۔ (صحیح بخاری: رقم 3814)ملا قاری علی رحمہ اللہ تعالی شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں کہ ہدیہ میں جانوروں کے چارے کا جو ذکر کیا گیا ہے، یہ بہت ہی معمولی چیز ہے۔ انسان ایسی معمولی چیز کو غور ہی نہیں کرتا اور لے لیتا ہے۔ فرمایا کہ جس کو تم نے قرض دیا ہوا ہے مقروض آدمی سے چھوٹی، معمولی چیز بھی ملے تو وہ بھی مت لینا۔ (مرقاۃ: 315/3)اس سے معلوم ہوا کہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ قرض سے فائدہ اُٹھانا یہ سود ہے، یہ حرام ہے۔ اس چیز سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا ہے۔ آج کل کے ماحول میں ایک تو احتیاط نہیں برتی جاتی، بلکہ اُلٹا اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ ایک آدمی نے کسی کو پیسے دے دیے، اب مقروض لوٹا نہیں پا رہا۔ اب یہ دینے والا چاہتا ہے کہ یہ میری خدمت ہی کرتا رہے، اور یہ اس سے فائدے ہی اُٹھاتا رہے، جانی و مالی خدمت لیتا رہے، یہ سب سود کے اندر شامل ہوجائے گا اور حرام ہوگا۔امامِ اعظم رحمہ اللہ تعالی کا کمالِ احتیاط ایک مرتبہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی دھوپ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ کسی نے کہا کہ حضرت! یہاں دیوار کے سایہ میں چھائوں ہے آپ اِدھر آجائیے۔ فرمایا: میں نہیں آتا۔ لوگ بلاتے رہے اور یہ منع کرتے رہے۔ لوگوں میں ایک شخص بڑا سمجھ دار تھا۔ اس نے سوچا کہ اتنے بڑے فقیہ ہیں ، متقی ہیں ، تو نہ آنے کی کوئی نہ کوئی بات تو ہوگی۔ چناں چہ اس نے قسم دے کر پوچھا: حضرت! کیوں نہیں آتے، وجہ بتائیں ۔ جب قسم دے دی تو امام اعظم رحمہ اللہ تعالی کہنے لگے: دیکھو! اس صاحبِ مکان پر میرا قرضہ ہے، مجھے _