گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
سے جاؤ۔ وہ آدمی حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالی کی دوکان پر آگیا۔ جس وقت وہ وہاں آیا، امام صاحب رحمہ اللہ تعالی موجود نہیں تھے، ان کا ملازم موجود تھا۔ اس آدمی نے وہاں ایک کپڑا پسند کیا اور اس کی قیمت پوچھی۔ ملازم نے بتایا 1000 روپے۔ اس نے بغیر کسی بھاؤ تاؤ کیے خرید لیااور واپس مدینہ طیبہ چلا گیا۔کچھ دنوں بعد امام اعظم رحمہ اللہ تعالی نے اپنے ملازم سے اس کپڑے کا پوچھا کہ تم نے وہ کپڑا کتنے کا سیل کیا ہے؟ ملازم نے کہا کہ 1000 درہم کا۔ اس پر امام صاحب نے کہا کہ اس کی قیمت تو 600 درہم تھی۔ اب امام صاحب نے اس آدمی کے پیسے لوٹانے کے لیے مدینہ طیبہ کا سفر کیا۔ ذرا غور کریں کہ ایک ایسے شخص کو تلاش کرنے کے لیے سفر کر رہے ہیں ، جسے جانتے تک نہیں ہیں ۔ یہ ہمارے مقتدا ہیں جو دنیاوی معاملات میں خوفِ خدا رکھتے تھے، اور آخرت کے معاملے میں خوفِ خدا رکھتے تھے۔ غرض اسے تلاش کیا تو مسجد میں دیکھا کہ وہ آدمی وہی کپڑا پہنے مسجد میں نماز پڑھ رہا ہے۔خیر! اس سے نماز کے بعد بات چیت ہوئی۔ امام صاحب نے اس سے کہا کہ یہ کپڑا میرا ہے، تم مجھے دے دو۔ اس آدمی نے کہا کہ نہیں ! یہ میرا کپڑا ہے، میں نے اسے 1000 درہم میں ابو حنیفہ کی دوکان سے خریدا ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی نے بتایا کہ میں ہی ابو حنیفہ ہوں ۔ یہ کپڑا جو تم نے پہنا ہے اس کی قیمت 600درہم تھی، تم نے ہزار کا خریدا ہے، چار سو زائد ہے، یا تم زائد رقم واپس لے لو، یا کپڑا واپس کر دو۔ اس آدمی نے کہا: میں آپ حسنِ معاملات سے خوش ہوں ۔ لیکن پھر بھی امام صاحب رحمہ اللہ تعالی نے اسے 400 درہم واپس لوٹا دیے۔ یہ تھی اُن کے تقوے کی شان! اللہ اکبر کبیراًحضرت جریر رضی اللہ عنہ کا گھوڑا خریدنا: صحابیٔ رسولﷺ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے تین سو درہم میں ایک گھوڑا _