گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
نے کہا کہ نہیں ، یہ تو اس سے بھی مہنگا ہے۔ اس عورت نے تین سو، چار سو، حتّٰی کہ پانچ سو درہم تک قیمت لگائی۔ امام صاحب نے عورت سے کہا کہ اب تم نے اس کی قیمت صحیح لگائی ہے، یہ پانچ سو درہم کا ہے۔ اس عورت نے کہا کہ مجھے اس کے عوض پانچ سو روپے دے دیں ۔ امام صاحب رحمہ اللہ تعالی نے کہا کہ پہلے کوئی گواہ لے کر آئو، پھر میں تمہیں پیسے دوں گا تاکہ مجھے پتا چل جائے کہ یہ تیرا ہی کپڑا ہے، چوری کا مال نہیں ہے۔ اس عورت نے کہا کہ میں اپنے خاوند سے اجازت لے کر آئی ہوں اور یہ کپڑا میرا اپنا ہے۔ لیکن امام صاحب رحمہ اللہ تعالی نے کہا کہ خاوند کی گواہی کے بغیر نہیں خریدوں گا۔ وہ عورت جا کر اپنے خاوند کو لے آئی۔ اس نے حضرت کے سامنے جب گواہی دی تو پانچ سو درہم دے کر کپڑا خرید لیا۔ وہی کپڑا جو وہ سو درہم کا بیچنے آئی تھی، پانچ سو درھم کا بیچ کر چلی گئی۔ یہ تھی امام صاحب ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کی تجارت۔اگر آپ کسی سے چوری کا مال خرید رہے ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ یہ چوری کا مال ہے، تو حدیث کی رو سے آپ اس کی چوری میں شریک ہیں ۔تین مقروض اشخاص ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ تین طرح کے لوگ ایسے ہیں کہ جنہوں نے قرض لیا اور ادا نہ کرسکے، بلکہ انتقال کرگئے تو اللہ ربّ العزّت ان کا قرضہ خود ادا کریں گے۔ایک وہ آدمی ہے جو جہاد پر گیا اور اس کا کپڑا پھٹ گیا، بوسیدہ ہوگیا۔ اور فقط اپنے ستر کو چھپانے کے لیے اتنا قرض لیا کہ اپنا جسم ڈھانپ سکے۔ پھر وہ شہید ہوگیا اور قرضہ ادا نہ کرسکا۔ اسے ادائیگی کا موقع ہی نہیں ملا۔دوسرا وہ شخص جس کے سامنے کسی مسلمان کا انتقال ہو رہا تھا، میت کے پاس بھی کچھ _