گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
آتے ہیں ، ہم ان کے گھر جاتے ہیں ، معاملہ چل رہا ہے۔ تب تو کوئی حرج کی بات نہیں ۔ اگر کوئی کیس ایسا آگیا اور ان صاحب کے پاس جانا پڑگیا، اگر سابقہ معاملہ کے مطابق عمل دخل ہے، آنا جانا ہے، لین دین ہے تب تو جائز ہے۔ لیکن پہلے تو چھوٹا ہدیہ دیتے تھے، اب جب کیس پھنس گیا تو بڑی چیزیں ہدیہ کی جا رہی ہیں تو مقصد دیکھا جائے گا۔ کوئی آن ڈیوٹی ہے تو اسے مرتبے کا پاس رکھنا ہے، خیانت نہیں کرنی۔اگر رشتہ دار یا پرانا واقف کار اپنے غلط مسئلے کے حل کے لیے بڑے تحائف دے رہا ہے، تو بچنا ضروری ہے۔حسن بصری رحمہ اللہ تعالی کا قصہ اسی طرح علماء کا معاملہ بڑا سخت ہے۔ ان کو لوگ ہدیہ دیتے رہتے ہیں ۔ ان کو ہدیہ دینے والے کی نیت اور اپنی نیت بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالی کے پاس ایک شخص آیا اور دراہم سے بھری ہوئی تھیلی دی۔ ساتھ میں خراسان سے باریک کپڑا یعنی Imported کپڑا لا کے پیش کیا۔ حضرت نے واپس فرما دیا اور فرمانے لگے: دیکھو! جو شخص اس مرتبے پر بیٹھے جہاں پہ میں بیٹھا ہوں یعنی وعظ کرنا، نصیحت کرنا، لوگوں کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے قریب کرنا، اللہ کی بات کو پہنچانا، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے کو سمجھانا۔ کوئی ایسی نازک جگہ پہ بیٹھا ہو تو اسے چاہیے کہ لوگوں سے اس قسم کی چیزیں قبول نہ کرے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ قبول کرے اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے پاس ایسے حال میں پہنچے کہ کہہ دیا جائے ’’تو جو بیان کرنے جاتا تھا، تجھے وہاں سے پیسے مل جاتے تھے، چیزیں مل جاتی تھی، ہدیہ مل جاتا تھا۔ معاملہ برابر ہوگیا، اب ہمارے پاس کیا لینے آیا ہے؟ (فضائل صدقات)یہ بہت نازک مقام ہے۔ اگر ہدیہ لینا بھی ہو تو بھی اَسلاف کے طریقے کو دیکھیں کہ وہ قبول کرتے تھے تو کس طرح سے کرتے تھے۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالی ان لوگوں کا ہدیہ قبول _