گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
مثلاً کپڑا یا کوئی پلاٹ وغیرہ خریدے تو اس وقت اس چیز کی برائی بیان کرنا جس سے بیچنے والا اپنی چیز کو ہلکا سمجھے اور سودا کم پیسوں میں کر دے اور آپ کو فائدہ ہوجائے۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس لیے تاجر کو چاہیے کہ خریدتے وقت کسی کے مال کی برائی بیان نہ کرے۔ ہاں ! اگر واقعتاً کوئی برائی ہو جو نظر آ رہی ہے تو وہ بیان کرسکتا ہے، لیکن اتنا ہی عیب بتائے جتنا اس میں ہے، مبالغہ آرائی نہیں کرنی چاہیے۔دوسری بات حدیث میں فرمائی کہ ’’فروخت کریں تو اس چیز کی تعریف نہ کریں ‘‘۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بے جا تعریف نہ کرے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ دوکان دار کی چرب زبانی میں آکر سامان لے لے اور بعد میں افسوس کرے کہ میں اس کی باتوں میں آگیا وگرنہ میں وہ چیز نہ لیتا۔ تاجر کو خریدنے والے کا خیرخواہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ بھی اس تاجر کے ساتھ خیرخواہی والا معاملہ فرمائیں گے۔تیسری بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمائی کہ ’’کسی کمی اور نقص کو نہ چھپائے‘‘۔ مطلب یہ کہ اگر بیچی جانے والی چیز میں کوئی کمی ہے، یا کوئی خرابی ہے، یا Out of Fashion ہوگئی ہے، یا اس میں کوئی نقص ہے تو اس کو نہ چھپائے۔ تاجر اس عیب، خرابی کو بیان کر دے کہ میری اس چیز میں فلاں فلاں خرابی ہے۔حدیثِ ابی اُمامہ رضی اللہ عنہ میں چوتھی بات یہ تھی کہ خرید و فروخت میں قسمیں نہ کھائے۔ اس لیے کہ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:الحِلف منفقةٌ للسّلعة، ممحقةٌ للبركة. (صحیح البخاري: 1981)ترجمہ: ’’قسم کھانے سے سودا بِک جاتا ہے، (لیکن) برکت ختم ہو جاتی ہے‘‘۔تاجر کا صادق اور امین ہونا: برکت اور چیز ہوا کرتی ہے اور کثرت اور چیز ہوا کرتی ہے۔ تاجر آدمی معاملات میں _