گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
زندگی گزارنی ہوتی ہے اور کبھی اہلِ قرابت کے ساتھ، اور کبھی اجنبیوں سے معاملات ہو رہے ہوتے ہیں ۔ معاشرتی حقوق میں جو سب سے زیادہ اہم بات ہے، وہ تجارت کرنا ہے۔حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺ نے تجارت کے متعلق اپنی اُمت کو واضح رہنمائی فرمائی ہے۔ بعض اعمال خود کر کے دکھلائے تو وہ عمل سنت بن گیا۔ اہلِ ایمان کو فضائل سنائے گئے کہ اگر تم شریعت کے مطابق تجارت کرو گے تو اللہ ربّ العزّت قیامت کے دن تمہیں انبیاءf اور شہدا کے ساتھ کھڑا کر دیں گے۔ درحقیقت تاجر کا بہت بڑا مقام ہے، لیکن اس سے مراد وہ تاجر ہے جو اللہ کے احکامات اور رسول اللہﷺ کے طریقوں کو پورا کرتا ہو۔ یعنی مسلمان تاجر، ایمان والا تاجر، اللہ کے احکامات کو سامنے رکھنے والے تاجر کو اتنی بڑی عظمت دی گئی ہے۔ اور جس تاجر نے ان احکامات کا خیال نہ رکھا، من مرضی پر چلتا رہا۔ جدھر کو ہوا چل رہی ہے اُدھر کو چلتا رہا اور اللہ کے احکامات کو نہ دیکھا، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقوں کو نہ دیکھا تو یہی تجارت اس کو جہنم کی آگ کا ایندھن بنا دے گی۔ اس لیے تجارت اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے پر ہے تو باعثِ جنت ہے، اور چوبیس گھنٹے کی عبادت ہے۔ اور اگر اپنی من مرضی کے مطابق ہے، بازار کے رسوم ورواج کے مطابق ہے تو یہی تجارت جہنم کا ایندھن ہے۔رزقِ حلال کمانا کب فرض ہے؟ ہم سب جانتے ہیں کہ رزقِ حلال فرضِ عین ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:طَلَبُ کَسْبِ الْحَلَالِ فَرِیْضَۃٌ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ. (مشکاۃ المصابیح: 2781)ترجمہ: ’’فرائض کے بعد حلال کمائی کا حاصل کرنا فرض ہے‘‘۔ہم اتنی بات تو یاد رکھتے ہیں کہ رزقِ حلال کمانا فرض ہے، لیکن ایک اہم بات بھول _