گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
سب کو عطا فرمائے۔ تو گھر والوں کا خیال کرنا یہ سب نبیb کی ترغیب ہے۔خرچہ مرد ہی نے دینا ہے اور جیسے ہی نکاح ہوجاتا ہے۔ نکاح ہوتے ہی ہر آدمی پر اپنی بیوی کا نان نفقہ واجب ہوجاتا ہے۔ چاہے بیوی گھر میں ہو، یا مریضہ ہو ۔ تمام صورتوں میں اُس کا سارا خرچہ شوہر پر آتا ہے۔ کئی خواتین کے پیغامات آئے کہ ہم بیمار ہیں ۔ خاوند یہ کہتے ہیں کہ کھانا پینا ہم پورا کر دیں گے، دوائی کے پیسے اپنے باپ سے لے آئو۔ کیا یہ ہم نہیں کرسکتے؟ بھئی! بیماری تو صحت مند کو بھی آسکتی ہے، تمہیں خود بھی آسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر تمہیں بیمار کر دیتے تم گھر میں پڑے ہوتے پھر کیا کرتے؟ تو معاملات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں ۔ اور یہ کہنا کہ جی! پہلے ہمیں بتایا نہیں ، سمجھایا نہیں ، اب بیماری آگئی ہے تو ہم کیا کریں ۔ اب اپنا علاج وہاں سے کروائو۔ علامہ شامی رحمہ اللہ تعالی نے فتاویٰ شامی میں اس بات کو لکھا ہے کہ علاج معالجہ مرد کی ذمہ داری ہے۔ جب مرد کہتا ہے قَبِلْتُ میں نے قبول کیا۔ اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ صرف اچھائیوں کو قبول کیا؟ برائیوں کو نہیں کیا؟ صرف اچھی عادات کو قبول کیا؟ بری عادات کو قبول نہیں کیا؟ کہیں ایسا ہوتا ہے؟ قَبِلْتُ میں نے قبول کیا۔ اس کی ساری ضروریات کو قبول کیا، ہر چیز کو قبول کیا۔ میں مرجائوں گا، یہ وارث ہے میرے مال کی۔ ساری چیزوں کو جیسی ہے ویسا اس کو قبول کیا۔ ساری ذمہ داریوں کو قبول کرنا ہے۔ اور علماء نے لکھا ہے کہ نان نفقہ اور گھریلو خرچ میں شوہر کی آمدنی کے مطابق گھریلو خرچ شوہر پر لازم ہوگا۔ایک اور حق بھی بیوی کا متوجہ ہوتا ہے۔ بعض گھروں میں اس کا بھی احساس نہیں کیا جاتا۔ بیوی کو یا تو گھر پورا الگ لے کر دے دیں ۔ انسان نہیں دے سکتا، حیثیت نہیں _