گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
جھوٹ نہ بولے، صاف صاف بات کرے۔ تاجر کو سچا بھی ہونا چاہیے اور امانت دار بھی ہونا چاہیے۔ تاجر آدمی کے کمالِ اسلام کی دلیل یہ ہے کہ اپنی بات میں سچا ہو۔ اور اگر لوگ اس کے پاس اپنی امانتیں رکھوائیں تو اس کی حفاظت کرے، اس میں خیانت کرنے والا نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دولقب کافر دیتے تھے: (۱) صادق (۲) امین اُن کفار کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ و سلم صادق یعنی سچے بھی تھے اور امین بھی تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے صداقت اور امانت داری، دیانت داری کے ساتھ تجارت کی۔ اب وہ تاجر جس کے پاس لوگ اپنا Cash اور اپنی امانتیں نہیں رکھواتے اور ڈرتے ہیں ۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس تاجر کی تجارت سنت سے ہٹ کر ہو رہی ہے۔ جو سنت کے مطابق تجارت کرے گا، اللہ تعالیٰ اس بندے کو خودبخود یہ نعمت عطا فرمائیں گے کہ لوگ اپنی امانتیں آکر رکھوائیں گے۔معاملات کا ایمان سے گہراتعلق: اگلی بات حدیثِ معاذ رضی اللہ عنہ میں ہے کہ ’’جب تاجر وعدہ کرے تو وعدہ خلافی نہ کرے‘‘۔ مثال کے طور پر کسی نے اُدھار لیا ہے جس کی ادائیگی کرنی ہے۔ اب کوشش کرے کہ مقررہ وقت پر اس کی ادائیگی کر دے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ یہ سارے اعمال تھوڑے سے ایمان کے ساتھ ہوجاتے ہیں ، لیکن معاملات میں بہت تھوڑے لوگ ایسے ہیں جو معاملات میں اپنے آپ کو پورا کر دکھاتے ہیں ۔ معاملات کی صفائی کے لیے بڑے ایمان کی ضرورت ہے۔ ورنہ ہم لوگوں کا عام طور سے معاملات میں حال بہت خراب ہوتا ہے۔ اور اس میں داڑھی والے یا بغیر داڑھی والے کا بھی کوئی تعلق _