گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم ارشاد فرمایا: اسے (صاحبِ حق کو) گنجائش ہے کہ وہ کچھ کہہ سکے۔ (مشکوٰۃ: صفحہ 251)اگر قرض خواہ کے مزاج میں کچھ سختی آجاتی ہے تو شریعت میں ہے کہ مقروض اسے برادشت کرے۔ اب اس سے متعلق ایک واقعہ سنیے! اور دل کے کانوں سے سنیے! اللہ والوں کی بھی کیسی عجیب باتیں ہوا کرتی ہیں ۔ اللہ اکبر کبیرًا! اللہ ربّ العزّت یہ حلم ہمیں بھی عطا فرمائے۔ علم کی نعمت حلم کے ساتھ ہوتی ہے۔ آج ہمارے اندر حلم یعنی برداشت کا مادہ تو ہے ہی نہیں ۔ ہمارے مزاج ماچس کی تیلی جیسے ہوگئے ہیں ، ذرا سا رگڑو تو آگ نکلتی ہے۔ معلوم ہوا کہ حلم اللہ سے مانگنا چاہیے۔ یہ ایک نعمت ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا حلم کتنا تھا اس کا اندازہ اس واقعے سے ہوگا۔ ہم لوگ تو مسلمان بھائیوں کی باتوں کو برداشت نہیں کرتے ہیں ، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم تو یہودیوں کی سختیوں کو برادشت کیا کرتے تھے۔ ہمارا دین محبت، اخلاق اور تحمل سے پھیلاہے۔ داعی ہونا آسان کام نہیں ہے۔نبی کریمﷺ کے تحمل کا واقعہ مدینہ منورہ میں یہودیوں کے ایک بڑے عالم تھے زید بن سُعُنَّہ۔ فرماتے ہیں کہ جب مجھے پتا لگا کہ مدینہ میں ایک رسول آئے ہیں ، تو میں انہیں دیکھنے گیا۔ آگے فرماتے ہیں کہ جب میں نے چہرۂ نبوت کو دیکھا تو میں نے پہچان لیا کہ یہ چہرہ حق ہے۔ ہماری کتابوں میں جو نشانیاں ہیں وہ سب اِن میں ہیں ۔ بس دونشانیاں ابھی باقی ہیں :ایک نشانی تو یہ ہے کہ ان کا حلم ان کے غصے پر سبقت لے جائے گا۔ یعنی برداشت زیادہ ہوگی، غصہ کنٹرول میں رہے گا۔اور دوسری نشانی یہ ہے کہ کوئی جاہل ان کے ساتھ جتنی زیادہ جہالت والا معاملہ کرتا _