گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
مال اتنا زیادہ چھوڑ کر گئے جس کا شمار نہیں ہوسکتا۔ تین اَرب، دس کروڑ سونے کے سکے چھوڑ کرگئے۔ اگر چالیس، پچاس ہزا کا بھی ایک سکہ ہو تو بات کدھر تک جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بے حساب پراپرٹی، دس ہزار بکریاں ، ایک ہزار اُونٹ۔ اب اگر ان سب کی قیمت بھی شمار کریں تو حساب کہاں پہنچ جائے گا؟ اولاد میں جو سونے کا ترکہ تقسیم کیا گیا تو اس سونے کو کاٹنے کے لیے کلہاڑا استعمال ہوا۔ وہ کوئی بہت بڑے ٹکڑے ہوں گے جو کلہاڑے سے توڑے گئے۔ 10 تولے کا بسکٹ بھی کلہاڑے سے نہیں توڑا جاتا۔بہرحال جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو تجارت کے اندر یہ اعلیٰ مقام کیسے ملا؟ تو کہنے لگے کہ میں نے ریٹ بڑھانے کے لیے کبھی مال کو نہیں روکا۔ مثال کے طور پر آج کوئی 100 کی چیز 105 کی مل رہی ہے، کل بیچیں گے تو 110 کی بک جائے گی۔ تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کبھی اس طرح کی تجارت نہیں کی۔ یعنی آتے ہوئے گاہک کو واپس نہیں موڑا۔حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اپنا ایک واقعہ سنانے لگے کہ میں نے 1000 اُونٹ خریدے۔ نفع کے ساتھ بیچنا چاہتا تھا نہیں بکے۔ ایک گاہک آیا، اس نے کہا کہ سارے کے سارے خریدتا ہوں ، مگر اس کی قیمت وہی لگائی جو میری قیمتِ خرید تھی۔ میں نے ایک ہزار اُونٹ کو Cast to Castسیل کر دیا۔ مجھے نفع میں پھر بھی ایک ہزار رسیاں بچ گئیں ۔ میں نے وہ رسیاں ایک ہزار درہم میں بیچ دیں تو یوں مجھے ایک ہزار درہم کا فائدہ ہوگیا۔ یعنی انہوں نے اپنے اس عروج کی وجہ یہ بتائی کہ گاہک کو کبھی قیمت بڑھنے کی وجہ سے یہ نہیں کہا کہ یہ چیز نہیں ہے۔ اس میں تھوڑا بھی نفع ملتا تو اس چیز کو وہ سیل کر دیتے تھے۔دوسری وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ادھار کبھی نہیں کیا۔ تیسری وجہ یہ بتائی کہ 5 فیصد _