احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
۷… جاہل عرب، بت پرست، ملحد، قاطع الرحم، اﷲ کے ذکر سے اعتراض کرنے والے، ٹوٹکے، شگون لینے والے ستاروں اور پتھروں کو پوجنے والے تھے۔ گوہ، بچھو، سانپ اور مردہ جانوروں کوکھاتے تھے۔ قحط وخشک سالی میں اونٹوں کو زخمی کر کے ان کا خون پیا کرتے تھے۔ ان کی عمدہ غذاؤں میں سے اونٹ کا گوشت تھا اور بڑی عزت ان کی اس میں تھی کہ وہ ملوک آل مند، آل بنو جعفر کے پاس سفیر ہو کر جاتے تھے۔ بدکاری سے نفرت نہ تھی۔ شراب نوشی اور عرقیات نشی پینے کا ازشوق تھا۔ کنواری اور بیاہی عورتیں زنا کو فخر سمجھتی تھیں اور نیوگ کی رسم بعض قبائل میں جاری تھی۔ یتیم بچوں کا مال کھالینے میں ذرا بھی تأمل نہ کرتے تھے۔ حق ہمسائیگی کوئی چیز ہی نہ تھا۔ آخرت کو نہ جانتے تھے۔ مرنا جینا صرف اسی دنیا کے واسطے جانتے تھے۔ باوجود اس جہالت کے خاندان کے نسب نامے اور شجرے یاد رکھتے۔ خوابوںکی تعبیر کرنے اور راہٹ کا من کہلاتے۔ تمام قومیں آزادانہ گذارہ کرتی تھیں۔ خانہ بدوش تھیں، تاجر اور فصیح اللسان بھی تھیں۔ شعروسخن کا چرچا عام تھا۔ اکثر مشاعرہ میں ابیات واشعار عشقیہ بیان کئے جاتے۔ ۸… عرب میں بعض قبیلے ایسے بھی تھے جن میں تہذیب وتمدن ومعاشرت اور قبائل کی نسبت زیادہ تھے اور ان میں شرافت ونجابت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ فسق وفجور ودیگر افعال جاہلیت ہر گز نہ تھی۔ مہمان نوازی، فیاضی وعدہ وفائی، تیز فہمی، طبیعت کی غواصی، شہسواری، بہادری، مروت، خداپرستی، احسان، شجاعت میں مشہور تھے اور وہ سردار قوم شمارہوتی ہے ان قبائل سے بنوہاشم زیادہ ممتاز تھے۔ جناب ہاشم بن عبدمناف قریش میں بہت مالدار اور ذی وجاہت وبااثر تھے۔ فیاض، رحم دل، تاجر، شجاع وسخی تھے اور وہ مکہ معظمہ کے حاکم وسردار تھے۔ ۵۱۰ء کو ہاشم نے انتقال فرمایا اور ان کی جگہ ان کے بیٹے حضرت عبدالمطلب کو اپنے چچا مطلب کے بعد جگہ ملی اور قریب ساٹھ سال تک مکہ پر حکومت کرتے رہے اور قریش کے دس بڑے قبیلوں کے سردار جو شیوخ کہلاتے تھے وہ سب ان کی حکومت میں ممدو معاون رہے۔ حضرت عبدالمطلب کے زمانہ میں ابرہہ حاکم یمن نے ساتھیوں کا لشکر اور بیشمار فوج لے کر مکہ پر چڑھائی کی تاکہ معاذ اﷲ خانہ کعبہ کو گرا کر برباد کرے اور قریش کو قتل کر ڈالے اور مکہ سے ایک منزل کے فاصلہ پر قیام کر کے اسود بن مقصود کی ماتحتی میں ایک دستہ سواروں کا روانہ کیا کہ اونٹ اور آدمی بیکار پکڑ لائے۔ پس اسود اہل مکہ کے کچھ مویشی اور حضرت