احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
دیتا ہے۔ کوئی بیت المقدس، کوئی دمشق، کوئی مصر۔ مگر سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ قرآن شریف کے لفظ ربوہ، ذات قرار، معین ان میں سے کسی پر بھی صادق نہیں آتے۔ ربوہ چاہتا ہے بلند زمین ہو۔ (آپ کے دماغ میں ایک خاص قسم کی بلندی جاگزین ہے۔ لہٰذا وہ آپ کو مذکورہ بالا مقامات پر نظر نہیں آتی۔ یعنی چار ہزار فٹ۔ مؤلف) ذات قرار چاہتا ہے کہ ہموار ہو۔ پہاڑ نہ ہو۔ (کشمیر میں شاید آپ کے خیال میں پہاڑوں کا نام بھی نہیں۔ مؤلف) یا بہت پھلوں والی ہو (بہت کے لفظ کا سہارا لے کر آپ مقامات مذکورہ سے میوہ جات کی نفی کر سکتے ہیں۔ یہ چالاکی قابل داد ہے۔ بہت کی مقدار شاید چار ہزار من یا ٹن ہو۔ مؤلف) ذات معین چاہتا ہے کہ اس سطح زمین پر چشمے اور نہریں بہہ رہی ہوں۔ (تو گویا شام میں نہروں کی وہ خاص مقدار جو آپ نے مقرر کر رکھی ہے موجود نہیں۔ غالباً چار ہزار کے لگ بھگ ہوگی۔ مؤلف) ان تمام صفات مین اگر کوئی یکتا قطعۂ زمین ہے تو وہ کشمیر ہے اور دمشق اور مصر توبہرحال نہیں۔ (وہ کیوں؟ مؤلف) کشمیر کی بلندی چار ہزار فٹ یا اس سے اوپر ہے۔ (ربوہ کے مفہوم میں یہ جدت تحریف قرآن اور زبان عرب پر صریح دست درازی ہے۔ عرب جن کی لغت میں قرآن نازل ہوا۔ اس کو نہیں سمجھ سکتے۔ پھر یہ بھی بتایا ہوتا کہ ربوہ کا عرض وطول کتنا چاہئے۔ چار ہزار مربع میل؟ مؤلف) پھر یہ ذات قرار ہموار میدان ہونے کے لحاظ سے بھی ہے اور پھلوں والی جگہ ہونے کے لحاظ سے بھی۔ پھر چشمے بھی اس میں اس کثرت سے بہتے ہیں کہ ان کی نظیر دوسری جگہ نہیں۔ (پھر قادیان کے قریب ہے۔ نیز روایتی پچاس الماریوں والی یا جبروت حکومت کے زیر نگین ہے۔ جس کو بقول کسے، اگر حکومت سفید فام لوگوں کے لئے نوآبادی بنانے کی فکر میں ہے تو آپ اور قادیانی اس کو ارض موعود بنانے کے درپے ہیں۔ مسٹر کالون اس نکتہ دقیقہ کو غالباً سمجھ چکے ہیں کہ ہر خود ساختہ نبی کے لئے بھی ارض موعود کا ہونا ضروری ہے۔ یاد رہے کہ غلام جب تک آغا کے مقاصد میں اس کا ہاتھ بٹاتارہے محبوب ہے۔ وفادار ہے۔ لیکن جب اس نے انباز ہونے کا سودائے خام دماغ میں لایا، فنا ہوا۔ روسیاہ ہوا۔ ربوہ اور انجیل مفسرین کرام کا آپ اور آپ کے خفیہ اور ظاہری معتقدین شوق سے مضحکہ اڑایا کریں۔ مگر حیرت ہے کہ انجیل کی تفصیلات ذیل آپ کے یہاں کیوں درخور اعتنا نہیں۔ گلیل کے علاقہ میں ایک شہر ناصرہ تھا۔ جو دراصل پہاڑی پر بستا تھا۔ (لوقا باب:۴، آیت:۲۹) اس جگہ کو مریم مقدسہ نے مصر سے واپس آکر اپنا جائے قرار بنایا۔ (یوحنا باب:۱، آیت:۶۰) ’’وآخردعوانا ان الحمد ﷲ رب العلمین‘‘ (محمد نورالحق العلوی، بازار حکیماں لاہور، ۱۹؍اگست ۱۹۳۳ئ)