احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
میں آئے ہوںگے۔ جو شاید اس وقت حکومت مصر کا باج گذار ہوگا اور کچھ بعید نہیں کہ آپ نے یہاں شادی کی ہو اور یہ یوسف زئی یوسف کی ہی اولاد ہوں۔ پھر یہی افغان ہیں۔ جن میں سلیمان خیل محمد زئی (شاہ امان اﷲ خان اور شاہ نادر خان کی قوم) اور عمر زئی، عثمان خیل، علی خیل وغیرہ موجود ہیں۔ احادیث صحیحہ کی ظنیات بلکہ موضوعات قرار دینا اور خود سودائے نبوت میں اس قسم کی مضحکہ خیز اور بے سروپا باتیں کہنا۔ بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بو العجبی است تناقض مرزاقادیانی نے الہام کا دامن چھوڑ کر اس موقع پر بے شمار مصیبتیں اپنے سر لے لیں۔ خود مرزاقادیانی حضرت مسیح کی شادی اور اولاد کے متعلق بدیں الفاظ تصریح کر چکے ہیں اور کوئی اس کی (مسیح کی) بیوی بھی نہیں تھی۔ (ریویو جلد اوّل نمبر۳ ص۱۲۴) اور ظاہر ہے کہ دنیاوی رشتوں کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ (حاشیہ تریاق القلوب ص۹۹، خزائن ج۱۵ ص۳۶۳) حقیقت حال مرزاقادیانی کی مذکورہ بالا فسانہ طرازی پر بحث کرنے کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اصل واقعہ بیان کر دیا جائے۔ حضرات ائمہ تفسیر نے آیت ’’وجعلنا ابن مریم وامہ اٰیۃ واٰویناہما الیٰ ربوۃ ذات قرار ومعین‘‘ کی تفسیر میں اور (طبری ج۲ ص۲۰،۲۱، ابن اثیر ج۱ ص۱۳۵، ابوالفداء ج۱ ص۳۵، ابن خلدون ج۲ ص۱۴۶، ابن سعد ج۱ ص۲۶) نے تصریح کی ہے کہ شاہ ہیرود لیس کے مظالم سے تنگ آکر حضرت مریم صدیقہ علیہا السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے بعد ان کے ہمراہ ملک شام کو چھوڑ کر ملک مصر آئیں۔ پھر بارہ سال کے بعد مصر سے واپس آکر شہر ناصرہ (از شام) میں اقامت اختیار کی۔ وہاں اٹھارہ سال تک رہے۔ پھر تیس سال کی عمر میں حضرت مسیح کو ان قوموں کی ہدایت کے لئے مامور کیاگیا۔ (پھر تینتیس سال کی عمر میں واقعہ صلیب اور رفع پیش آیا۔ دیکھو تفسیر ابن کثیر ج۳ ص۲۴۵ وجلد نہم ص۳۸۰) اسی لئے مسیح علیہ السلام کو ناصری بھی کہتے ہیں۔ اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا مصر کے اس سفر ہجرت کے علاوہ حضرت مسیح کا کوئی دوسرا سفر بلاد ہند کی طرف تاریخ سے ثابت نہیں ہوتا۔ ’’ومن ادعیٰ فعلیہ البیان ولیجلب علے ذالک بخیلہ ورجلہ‘‘