احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
بسم اﷲ الرحمن الرحیم! صحیفہ رحمانیہ نمبر۲۲ کے شروع میں شریعت محمدیہ اور اقوال مرزائیہ میں جو مخالفت دکھائی گئی ہے یہ اس وقت دکھائی ہے کہ شہر مونگیر کی ایک مسجد سے قادیانی بحکم حاکم نکالے گئے ہیں اور ان کی طرف سے ہائی کورٹ پٹنہ میں یہ مقدمہ پیش ہوا ہے اور علمائے اسلام کی طرف سے مرزا کی مخالفت، اسلام سے دکھائی گئی ہے اور حکام عالیہ نے ملاحظہ کر کے مرزائیوں کے مسجد سے نکالے جانے کا حکم بحال رکھا اور ان کی رسوائی پر خوب روغن چڑھادیا۔ مونگیر کے قریب بھاگلپور ہے۔ وہاں کے قادیانی مولوی عبدالماجد نے پورینی کے عید گاہ پر دعویٰ کیا کہ یہ عید گاہ ہماری ہے۔ اس میں مسلمان نہ آئیں۔ مگر حاکم نے مقدمہ خارج کردیا۔ اب اس میں مسلمان نماز پڑھتے ہیں۔ مرزائی جماعت وہاں منہ بھی نہیں دکھاتی۔ یہ قدرتی حکم اور جگہوں کے لئے نظیر ہوگیا اور دو جگہ انہیں اسی قسم کی اور رسوائی ہوئی۔ چنانچہ کٹک میں بھی مرزائیوں کے مسجد سے نکالے جانے کا مقدمہ اہل اسلام نے دائر کیا اور وہی مونگیر والے مقدمہ کی مثل منگا کر پیش کی۔ وہاں کی مسجد سے بھی مرزائی نکالے گئے اور مرزائیوں کو تین جگہ رسوائی ہوئی۔ موریسش افریقہ کی مسجد سے مرزائیوں کا نکالا جانا افریقہ جنوبی کے شہر موریسش میں قادیانیوں نے غلبہ کیا تھا اور تیس چالیس مسلمانوں کو بہکا کر مرزائی بنالیا تھا اور کئی مسجدوں پر قابض ہوگئے تھے۔ مولانا عبداﷲ رشید صاحب امام جامع مسجد نے مسلمانوں سے مقدمہ دائر کرایا اور مرزائیوں نے بڑے زور سے دعویٰ کیا کہ ہم اہل حق ہیں۔ ضرور جیتیں گے۔ اگر نہ جیتیں تو ہم جھوٹے ہیں۔ تقریباً دو سال تک مقدمہ چلتا رہا۔ اس میں مولانا عبداﷲ رشید صاحب نے بڑا کام کیا۔ مونگیر سے مقدمہ مذکور کی نقل منگا کر پیش کی۔ وہاں کا قادیانی مولوی انگریزی دان بی۔اے تھا اور اپنے بیرسٹر کو سوالات لکھ کر دیتا تھا۔ مگر جناب مولانا عبداﷲ رشید صاحب نے وہ محنت اور توجہ کی کہ اس کی انگریزی دانی سب رد ہوگئی۔ جناب امام صاحب کے اظہار چھ مہینے سے زیادہ ہوتے رہے۔ یعنی مسلمانوں کے دعویٰ کا ثبوت بیان کرتے