احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
مولوی ثناء اﷲ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ اس اشتہار میں مولانا ثناء اﷲ صاحب کو مخاطب کر کے اور ان کی تحریرات متعلق ابطال وتردید مرزائیت کا شکوہ وشکایت کرتے ہوئے مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔ ’’اگر میں ایسا کذاب، مفتری اور جھوٹا ہوں۔ جیسا کہ آپ ہر ایک پرچہ میں یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی ہی میں ہلاک ہو جاؤں گا۔ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸) اشتہار مذکور کے اخیر میں لکھتے ہیں۔ ’’یا اﷲ میں تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اﷲ میں سچا فیصلہ فرما اور جو تیری نگاہ میں حقیقت میں مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھالے۔‘‘ انتہیٰ ملخصاً! (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۹) یہ دعاء مرزاقادیانی کی قبول ہوگئی کہ مولانا ثناء اﷲ متع اﷲالمسلمین بطول حیاتہ کی زندگی میں مرکر نہ صرف اپنے کذب کا بلکہ اپنے مشن کے ہی کاذب ہونے کا فیصلہ کر گئے۔ پس مرزاقادیانی حسب اقرار خود مفسد، کذاب اور مفتری ثابت ہوئے اور دنیا کو مرزاقادیانی کی حقیقت معلوم ہوگئی ؎لکھا تھا کاذب مرے گا پیشتر کذب میں سچا تھا پہلے مرگیا برادران اسلام! یہ مرزاقادیانی کے بطور نمونہ چند کذبات وافترأت ہیں جو اس مختصر سے رسالے میں درج کئے گئے ہیں۔ اگر اس کے تصنیفات کو دیکھا جائے اور جملہ کذبات کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جائے گی۔ پس ان چند ہی پیش گوئیوں سے معلوم ہوگیا کہ مرزاقادیانی ہرگز نبی نہیں تھے۔ ان کے سب دعوے اور پیش گوئیاں محض دکانداری اور ابلہ فریبی کا ایک سلسلہ تھا۔ جو اس نے اپنی مطلب برآری کے لئے بافت کی ہیں۔ جو شخص اتنے کذبات تصنیف کرے نبی تو بجائے خود، صحیح معنوں میں مسلمان بھی نہیں ہوسکتا۔ قادیانی دوستو! اگر تم کو مرزاقادیانی کی کچھ بھی پاس خاطر ہے تو ان پچاس جھوٹوں کو جو اس رسالہ میں درج ہوئے ہیں، غلط ثابت کر دو۔ ورنہ حسب فرمان مرزاقادیانی ’’جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۵۶) ان کو مرتدین کی فہرست میں کیوں نہ داخل کیا جاوے؟ وما علینا الا البلاغ خادم الاسلام: ابوالحریز عبدالعزیز ملتانی! شعبان ۱۳۴۹ھ