احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
مسلمان مرزاقادیانی کی اس نصیحت پر عمل کرتے اور ہندوستان میں انگریزی حکومت کے مخالفین پیدا نہ ہوتے تو کیا ہندوستان آزاد اور پاکستان قائم ہوسکتا تھا۔ آج تک خدانخواستہ انگریز کی اطاعت اور غلامی میں ہی مسلمان زندگی بسرکرتے۔ ’’فاعتبروا یا اولیٰ الابصار‘‘ ۴… ان پچاس الماریوں میں سے اگر تعلیم یافتہ مسلمان مرزاقادیانی کی صرف دو درخواستیں ہی پڑھ لیں تو مرزائی نبوت بے نقاب ہو جاتی ہے۔ طوالت سے بچنے کے لئے یہاں ہم ان کے بعض اقتباسات ہی پیش کریںگے۔ ان میں سے ایک درخواست کا عنوان مرزاقادیانی نے خود یہ لکھا ہے۔ ’’حضور گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست‘‘ اس میں لکھتے ہیں کہ: الف… ’’یہ عاجز گورنمنٹ کے اس قدیم خیرخواہ خاندان میں سے ہے جس کی خیر خواہی کا گورنمنٹ کے عالی مرتبہ حکام نے اعتراف کیا ہے… میرے والد مرحوم مرزاغلام مرتضیٰ اس محسن گورنمنٹ کے ایسے مشہور خیرخواہ اور دلی جانثار تھے… والد مرحوم گورنمنٹ عالیہ کی نظر میں ایک معزز اور ہردلعزیز رئیس تھے۔ جن کو دربار گورنری میں کرسی ملی تھی… اس گورنمنٹ کی خیرخواہی ایک میخ فولادی کی طرح ان کے دل میں دھنس گئی تھی۔ ان کی وفات کے بعد مجھے خداتعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح بالکل دنیا سے الگ کر کے اپنی طرف کھینچ لیااور میں نے اس کے فضل سے آسمانی مرتبت اور عزت کو اپنے لئے پسند کر لیا۔ لیکن اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکتا کہ اس گورنمنٹ محسنہ انگریزی کی خیرخواہی اور ہمدردی میں مجھے زیادتی ہے یا میرے والد مرحوم کو… اب میں اپنی گورنمنٹ محسنہ کی خدمت میں جرأت سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ وہ بست(۲۰) سالہ میری خدمت ہے جس کی نظیر برٹش انڈیا میں ایک بھی اسلامی خاندان پیش نہیں کر سکتا… میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ میں تمام مسلمانوں میں سے اوّل درجہ کا خیرخواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں۔ کیونکہ مجھے تین باتوں نے خیرخواہی میں اوّل درجہ پر بنادیا ہے۔ (۱)اوّل والد مرحوم کے اثر نے۔ (۲)اس گورنمنٹ عالیہ کے احسانوں نے۔ (۳)تیسرے خداتعالیٰ کے الہام نے۔ اب میں اس گورنمنٹ محسنہ کے زیر سایہ ہر طرح سے خوش ہوں۔‘‘ (مرزاغلام احمد از قادیان المرقوم ۲۷؍ستمبر ۱۸۹۹ء ملحقہ تریاق القلوب ص۳۵۹تا۳۶۳، خزائن ج۱۵ ص۴۸۷تا۴۹۱) درخواست دوم مرزاقادیانی کی دوسری درخواست کا یہ عنوان ہے۔ ’’بحضور نواب لیفٹیننٹ گورنر بہادر دام اقبالہ‘‘