احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
’’لیکن یہ سب امور گورنمنٹ عالیہ کی توجہات پر چھوڑ کر بالفعل ضروری استغاثہ یہ ہے کہ مجھے متواتر اس بات کی خبر ملی ہے کہ بعض حاسد بداندیش جو بوجہ اختلاف عقیدہ یا کسی اور وجہ سے مجھ سے بغض اور عداوت رکھتے ہیں یا جو میرے دوستوں کے دشمن ہیں۔میری نسبت اور میرے دوستوں کی نسبت خلاف واقعہ امورگورنمنٹ کے معزز حکام تک پہنچاتے ہیں۔ اس لئے اندیشہ ہے کہ ان کی ہر روز کی مفتریانہ کارروائیوں سے گورنمنٹ عالیہ کے دل میں بدگمانی پیدا ہوکر وہ تمام جانفشانیاں پچاس سالہ میرے والد مرحوم مرزاغلام مرتضیٰ اور میرے حقیقی بھائی مرزاغلام قادر مرحوم کی جن کا تذکرہ سرکاری چٹھیات اور سرلیپل گرفن کی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں اور نیز میری قلم کی وہ خدمات جو میرے اٹھارہ سال کی تالیفات سے ظاہر ہیں سب کی سب ضائع اور برباد نہ ہوجائیں اور خدانخواستہ سرکار انگریزی اپنے ایک قدیم وفادار اور خیرخواہ خاندان کی نسبت کوئی تکدر خاطر اپنے دل میں پیدا کرے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۱) خود کاشتہ پودہ ’’صرف یہ التماس ہے کہ سرکار دولتمدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار، جانثار خاندان ثابت کرچکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیرخواہ اور خدمت گذار ہیں۔ اس خودکاشتہ پودہ کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط سے اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اورمیری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔ ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا اور نہ اب فرق ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۱) اس کے بعد مرزاقادیانی نے ۳۱۶ مریدوں کے نام لکھے ہیں۔ جو سرکار انگریزی کے نمک پروردہ اور جانثار ہیں۔ تبصرہ مرزاقادیانی نے گورنمنٹ برطانیہ اور اس کے لیفٹیننٹ گورنر کے حضور میں جو عاجزانہ درخواستیں پیش کی ہیں۔ ان پر تفصیلی تبصرہ کی ضرورت نہیں رہتی اور دوسری درخواست کی آخری سطور میں مرزاقادیانی نے اپنے اور سارے خاندان کو انگریز کا خودکاشتہ پودہ تسلیم کر کے قادیانی