احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
میں مذکورہ درخواست میں لکھا ہے کہ: ’’بالخصوص پرچہ نور افشاں میں جو ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتا ہے۔ نہایت گندی تحریریں شائع ہوئیں اور ان مؤلفین نے ہمارے نبیﷺ کی نسبت نعوذ باﷲ ایسے الفاظ استعمال کئے کہ یہ شخص ڈاکو تھا، چور تھا، زناکار تھا اور صدہا پرچوں میں یہ شائع کیا کہ یہ شخص اپنی لڑکی پر بدنیتی سے عاشق تھا اور باایں ہمہ جھوٹا تھا اور لوٹ مار اور خون کرنا اس کا کام تھا۔ تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندریشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں پر جو جوش رکھنے والی قوم ہے ان کلمات کاکوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو۔ تب میں نے ان کے جوش کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنی صحیح اور پاک نیت سے جواب دیا جائے۔ تاسریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں بدامنی پیدا نہ ہو۔‘‘ (اشتہار ملحقہ تریاق القلوب ص د،ج، خزائن ج۱۵ ص۴۹۰) مقام عبرت مرزاقادیانی نے واقعی حق نمک ادا کردیا کہ مسلمانوں کے اسلامی جوش کو ٹھنڈا کرنے اور سرکار انگریزی کو خوش کرنے کے لئے پادریوں کے جواب میں کچھ سخت الفاظ میں کتابیں لکھ دیں۔ ورنہ مرزاقادیانی کے دل میں رحمت اللعالمینﷺ کی اس صریح توہین کے خلاف کوئی جوش نہیں پیدا ہوا۔ جس گورنمنٹ عالیہ کے سایہ میں یہ ناپاک کتابیں پادریوں نے لکھیں اس کی وفاداری اور عقیدت میں کوئی فرق نہ آیا اور قادیانی نبی ظاہرداری کے طور پر بھی یہ مطالبہ نہ کر سکا کہ ایسی ناپاک اور گندی کتابیں ضبط کی جائیں اور پادریوں کو سنگین سزا دی جائے۔کاش کہ اگر اس وقت کوئی برائے نام بھی مسلم حکومت ہوتی تو پادریوں کو ایسی اشتعال انگیز کتابیں شائع کرنے کی جسارت نہ ہوتی اور اگر خدانخواستہ لکھنے کی جسارت کرتے تو جہنم رسید کئے جاتے۔ عبرت! عبرت!! عبرت!!! سوال وجواب نمبر۴ ’’انبیائے کرام اور کافر حکومت۔‘‘ مرزائی سیکرٹری نے اس سلسلہ میں یہ لکھا ہے کہ چوتھے اعتراض کے جواب میں ہم نے لکھا تھا کہ قرآن مجید میں انبیاء کے جوکام بیان ہوئے ہیں۔ ان میں کسی جگہ یہ کام نہیں بتایا گیا کہ وہ حکومت کے تختے الٹنے آتے ہیں۔ ہماری اس بات کی تغلیط وتردید کے لئے ضروری تھا کہ قرآن مجید کے کسی مقام سے یہ اصول نکال کر بتایا جاتا۔ اس کے برعکس یہ لکھا ہے کہ قرآن مجید میں تصریح ہے کہ: ’’کتب اﷲ لا غلبن انا ورسلی ان اﷲ لقوی عزیز‘‘