احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
آجائے جس پر حدیثوں کے بعض ظاہری الفاظ صادق آسکیں۔ کیونکہ یہ عاجز اس دنیا کی حکومت اور بادشاہت کے ساتھ نہیں آیا ہے۔ درویشی اور غربت کے لباس میں آیا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۰۰، خزائن ج۳ ص۱۹۷،۱۹۸) اس آخری عبارت میں تو مرزاقادیانی نے دبی زبان سے یہ اقرار کر لیا کہ احادیث میں جس مسیح کے آنے کا ذکر ہے وہ میں نہیں ہوں اور ظاہر ہے کہ احادیث میں ایک ہی مسیح بن مریم کے آنے کی خبر ہے۔ لہٰذا مرزاقادیانی کو مسیح موعود ماننا بالکل باطل ٹھہرا اور یہی امت محمدیہ کا فیصلہ ہے۔ الفضل ماشہدت بہ الاعدائ! حضرت نانوتویؒ اور ختم نبوت عموماً مرزائی یہ فریب دیتے ہیں اور مرزائی سیکرٹری نے بھی یہی کیا ہے کہ حضرت نانوتوی نے بھی مرزاقادیانی کی طرح لکھا ہے۔ چنانچہ حضرت نانوتوی کی یہ دو عبارتیں پیش کی ہیں کہ: ۱… ’’رسول اﷲﷺ پر تمام مراتب کمال اس طرح ختم ہو گئے جیسے بادشاہ پر مراتب حکومت ختم ہو جاتے ہیں۔ اس لئے بادشاہ کو خاتم الحکام کہہ سکتے ہیں۔ رسول اﷲﷺ کو خاتم الکاملین اور خاتم النبیین کہہ سکتے ہیں۔‘‘ (حجتہ الاسلام) اس پر مرزائی سیکرٹری لکھتا ہے۔ ’’گویا آنحضرتﷺ کی غلامی اور متابعت میں نبی کا آنا خاتم النبیین کے منافی نہیں۔ خود حضرت نانوتوی فرماتے ہیں۔‘‘ ۲… ’’بالفرض اگر بعد زمانہ نبویﷺ بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کوئی فرق نہ آئے گا۔‘‘ (تحذیر الناس ص۲۸)الجواب الف… ختم نبوت کے متعلق حجتہ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ بانی دارالعلوم دیوبند کا عقیدہ بھی وہی ہے جو ساری امت محمدیہ کا ہے۔ البتہ آپ نے تحذیر الناس میں ختم نبوت کی تینوں قسموں مرتبی، زمانی اور مکانی کی محققانہ تفصیل بیان فرمائی ہے اور مرزائی سیکرٹری نے اوپر جو عبارتیں لکھی ہیں وہ ختم نبوت مرتبی کی تشریح میں ہیں۔ ان سے ختم نبوت زمانی کی نفی ثابت نہیں ہوتی۔ اسی لئے حضرت نانوتویؒ نے اس کو بالفرض کے لفظ سے ادا کیا ہے۔ یعنی بالفرض اگر حضورﷺ کے بعد کوئی نبی آئے تو اﷲتعالیٰ نے جو انتہائی کمالات نبوت آپ کو عطاء فرمائے ہیں۔ ان میں فرق نہیں آئے گا۔ باقی رہا یہ کہ کیا آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نیا نبی آئے گا