احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
قصے وغیرہ (خرافات ووہمیات) اس قابل نہیں کہ میں مسئلہ غیبت یا اس کے وقوع کے اثبات میں ان پر اعتماد کر سکوں۔} مگر مرزاقادیانی ہیں کہ اس خرافات واباطیل کی پوٹ پر ایمان لاکر یوذ آسف کی نبوت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ پھر از خود یوذ آسف کی کتاب کو بہ یک جنبش قلم انجیل قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اکمال الدین میں اس کا نام تک نہیں۔ کہیں یوذ آسف اور مسیح کو ایک مانتے ہیں اسی کو کہتے ہیں۔ مدعی سست اور گواہ چست۔ حیرت تو یہ ہے کہ مصنف اکمال غیبت جیسے برخود غلط مسئلے میں اس قصے سے استناد کرنے کا روادار نہیں۔ کیونکہ مسئلہ غیبت ورجعت اہل تشیع کی نگاہ میں شرعی حیثیت رکھتا ہے اور شرعیات میں خرافات سے استناد جائز نہیں۔ لیکن مرزاقادیانی اسی افسانہ کی بناء پر ایک اہم شرعی ذمہ داری اپنے سر لے کر یوذ آسف کو نبی اور اس کی پوتھی کو انجیل قرار دیتے ہوئے ذرا نہیں جھجکتے۔ مصنف اکمال اور مرزاقادیانی کے متعلق علی الترتیب یہی کہنا پڑتا ہے۔ دیدن آموخت ونہ دیدن آموخت انتہائی کذب یا مغالطہ اس تمام داستان امیر حمزہ میں جو چیز باوجود مکرر جستجو کے نہیں ملتی وہ یہ ہے کہ یوذ آسف مسیح کے نام سے مشہور تھا اور اس کی کتاب کا نام انجیل ہے۔ میں نے اس دھن میں کتاب کو الٹ ڈالا۔ ص۳۱۷سے۳۵۹ تک مکرر پڑھا۔ مگر بے سود۔ اس پر بھی مرزاقادیانی خوف خدا اور شرم خلق سے بے نیاز ہوکر لکھتے ہیں۔ ’’کتاب اکمال الدین، کتاب سوانح یوذ آسف میں صاف لکھا ہے۔ (غالباً ایسا صاف جیسے قادیان کا نام کلام مجید میں) کہ ایک نبی یوذ آسف کے نام سے مشہور تھا اور اس کی کتاب کا نام انجیل تھا۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۱۴، خزائن ج۱۷ ص۱۰۰) یہ سراسر افتراء اور غلط بیانی ہے۔ مرزائیوں کو چاہئے کہ یہ عبارت اکمال الدین میں دکھا کر مرزاقادیانی کا دامن پاک کریں۔ ورنہ توبہ کریں۔ اسی طرح (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۲۲۸، خزائن ج۲۱ ص۴۰۴) کے یہ الفاظ بھی سفید جھوٹ ہیں۔ ’’یوذآسف کی کتاب (اکمال الدین) میں صریح لکھا ہے کہ یوذ آسف پر خداتعالیٰ کی طرف سے انجیل اتری تھی۔‘‘ نیز فرماتے ہیں۔ ’’یوذ آسف کے حالات بیان کرنے کے بارے میں مسلمانوں کی کتابوں میں بعض ہزار برس سے زیادہ زمانہ کی تصنیف ہیں۔ جیسے کتاب اکمال