احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
ہے۔ ٹانک وائن کے لفظی معنی سن لینے کے بعد اس کی اصلیت معلوم ہو جائے گی۔ ٹانک مقوی، وائن انگوری شراب۔ ان تمام حرکات کے ساتھ ساتھ مرزاقادیانی کا یہ دعویٰ بھی ہے۔ ’’من فرق بینی وبین المصطفیٰ فما عرفنی وما رأی‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۱۷۱، خزائن ج۱۶ ص۲۵۹) جس نے مجھ میں اور مصطفیﷺ میں فرق جانا اس نے مجھے نہیں پہچانا اور نہیں دیکھا یعنی مجھ میں اور مصطفیﷺ میں کوئی فرق نہیں۔ بالفاظ دیگر میں عین محمد ہوں۔ انکار حدیث اور طعن صحابہ کی سزا تمام اہل سنت کا تیرہ سو سال سے متفقہ عقیدہ ہے کہ مرزاقادیانی اور اس کی امت دعوائے نبوت کی رو سے قطعاً مرتد ہے اور مرتد کی سزا قتل ہے۔ یہ طے شدہ اصول ہے۔ ہم اس پر یہاں بحث نہیں کریںگے۔ ہم یہ لکھ رہے تھے کہ انکار حدیث کی سزا (فیما بینہ وبین اﷲ) کفر وضلال ہے۔ اب ہمارا موضوع بحث یہ ہے کہ انکار حدیث کی دنیاوی سزا کیا ہے؟ اس کے لئے ہم کوئی اپنی رائے پیش نہیں کریںگے اور نہ کسی متأخر محدث ومفتی وفقیہ کا قول وفتویٰ نقل کریںگے۔ بلکہ عالم اسلام کی عظیم ترین شخصیت حضرت خلیفہ ہارون رشید عباسیؒ اور ان کے دور سعادت کے دو واقعہ لکھیںگے اور وہ بھی کسی متأخر کی تصنیف کے حوالے سے نہیں بلکہ خطیب بغداد (متوفی ۴۶۳ھ) کی تاریخ سے لیںگے۔ ’’لیہلک من ہلک عن بینۃ ویحیی من حی عن بینۃ‘‘ الف… خطیب نے قاضی القضاۃ عمر بن حبیب عدوی کے حالات میں خود قاضی موصوف کی زبانی ذیل کا واقعہ نقل کیا ہے۔ قاضی صاحب فرماتے ہیں۔ ’’دربار ہارون رشید میں میرے سامنے ایک مقدمہ پیش ہوا۔ ایک فریق نے حضرت ابوہریرہؓ کی روایت بطور سند پیش کی۔ دوسرے فریق نے کہا۔’’ابوہریرہؓ منہم فی ما یرویہ وصرحوا بتکذیبہ‘‘ ابوہریرہؓ کی روایت پر اعتماد نہیں اور وہ جھوٹا ہے۔ خلیفہ ہارون رشید نے بھی بظاہر اسی کی تائید کی۔ اس پر میں نے چمک کر کہا۔ ’’ابوھریرۃؓ صحیح النقل صدوق فی ما یرویہ عن النبیﷺ‘‘ ابوہریرہؓ نبی کریمﷺ کی احادیث میں راست باز ہیں اور صحیح طور پر حدیث کو بیان کرتے ہیں۔ میری اس واشگاف حق گوئی پر خلیفہ برہم ہوئے اور میں واک آؤٹ کر کے دربار سے نکل آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد خلیفہ کا قاصد میرے گھر پہنچا اور کہنے لگا۔ امیر المؤمنین بلاتے ہیں۔ قتل