احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
ازاں اجماع جس کی بنا ہی حدیث پر ہے۔ خود بخود بے حقیقت ہوکر رہ جائے گا۔ ’’نظام معتزلی نے اجماع صحابہ کو غلط قرار دیتے ہوئے صاف کہا ہے کہ امت محمدیہ گمراہی پر مجتمع ہوسکتی ہے۔‘‘ (الفرق ص۳۱۵) حالانکہ حضور کا ارشاد ہے۔ ’’لا تجمع امتی علی الضلالۃ‘‘ بنابریں علماء اہل سنت نے نظام کی تکفیر کی۔ علیٰ ہذا القیاس انکار حدیث سے ابطال قیاس لازم آئے گا۔ اب صرف کتاب الٰہی رہ جائے گی۔ جس کو ہر زندیق، ملحد، مبتدع، اپنی ہوائے نفس کے مطابق موڑ توڑ سکتا ہے۔ اسی زبردست خطرہ کو محسوس کر کے حافظ ابن القیم نے ’’الجیوش المرسلہ‘‘ جیسی معرکۃ الآراء تصنیف لکھی، تاکہ شرع کے اصول اربعہ (کتاب وسنت واجماع وقیاس) کو اہل ہوا کے حملوں سے بچایا جاسکے۔ غرض ہر ایک دور میں مبتدعین کی یہی سعی رہی ہے کہ سنن صحیحہ کی زد سے اپنے آپ کو بچائیں۔ کہیں روایات کا انکار کیا کہیں رواۃ علی الخصوص صحابہ کرامؓ پر آوازے کسے اور ان کی روایات کو مطعون ٹھہرایا۔ مرزائی دعوت کے مراتب مرزاقادیانی نے بھی اس حقیقت کو پالیا۔ اس لئے وہ اور ان کی جماعت کہیں احادیث صحیحہ کا انکار کرتے ہیں۔ کہیں مفسرین کا مضحکہ اڑاتے ہیں۔ کہیں فقہ اسلامی پر طعن کرتے ہیں۔ ہم بڑے غور وخوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ باطنیہ کی دعوت کی طرح مرزائی دعوت کے لئے بھی علی الترتیب مدارج ہیں۔ باطنی دعوت کے مدارج کے لئے دیکھو کتاب (الفرق للبغدادی ص۲۸۲ ببعد) ۱… مرزائی دعوت کا سب سے پہلا زینہ یہ ہے کہ درس قرآن میں، کلام الٰہی کی تفسیر میں ایسا طریق اختیار کیا جائے۔ جس سے مسلمان اپنے اسلاف اور ان کے عملی کارناموں سے قطعاً بدظن ہو جائیں۔ اس کے بعد ظاہر ہے کہ وہ مرزائی لٹریچر کی طرف متوجہ ہوںگے۔ یہ وہی خیال ہے جو کعبہ نجران کے بانیوں کو پیش آیا تھا۔ پھر انہوں نے کعبہ حجاز پر حملہ کرنے کے لئے اصحاب فیل کو بھیجا۔ یہ طریق دعوت آج کل لاہور میں عالم شباب کو پہنچ چکا ہے۔ ۲… اس کے بعد دوسرا زینہ یہ ہے کہ مرزاقادیانی کو ایک صادق راست باز، برگزیدہ، تمام صفات کاملہ کا مالک انسان تسلیم کرایا جائے اور ساتھ ساتھ مرزاقادیانی کی نبوت کا