احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
، غلط بیہودہ اور دلائل یکسر بے سروپا تخمین جہل وناواقفی کا بدترین مظاہرہ ہیں۔ جس حصہ کو دیکھئے عجیب وغریب خرافات کا مرقع پیش کرتا ہے۔ بات کا بتنگڑ بنانا یہاں بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ خیالات واہیہ پر ہوائی قلعے تعمیر کرنا یہاں شب وروز کا خوش کن مشغلہ ہے۔ درجنوں بے کار نتواں زیستن باقی تمام مباحث کو چھوڑ کر فقط یوذ آسف کو لیجئے اور انصاف سے کہئے کہ مرزاقادیانی نے یہاں کیا کیا گل کھلائے ہیں اور ایک خود ساختہ الہامات سے کام چلانے والے شخص کو اس تاریخی مسئلہ میں کیا کیا دقتیں اور ناکامیاں پیش آئی ہیں۔ مرزاقادیانی کو مسیح موعود بننے کا سودائے خام سر میں سمایا۔ یہ ایک پادر ہوا خیال تھا۔ اس پر آپ نے بے شمار خیالی اور وہمی قلعے استوار کئے۔ الف… سب سے پہلے آپ نے حضرت مسیح ابن مریم صدیقہ علیہما السلام کی وفات کا غیر اسلامی عقیدہ گھڑا اور اس کے متعلق تمام تر اسلامی تصریحات کو پس پشت ڈالتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ آپ کی بارگاہ میں سوائے وحی قرآنی اور وحی قادیانی کے اسلامی تعلیمات علے الخصوص احادیث صحیحہ کا ذخیرہ ردی کی ٹوکری میں پھینک دینے کے قابل ہے۔ مگر یہ خیال نہ آیا کہ انکار حدیث درحقیقت تمام شرائع اسلامیہ کی صورت کذائیہ متواترہ کا انکار ہے۔ بلکہ خود ختم المرسلینﷺ کی بعثت سے ہاتھ دھونا ہے۔ انکار حدیث درحقیقت ضرورت نبوت کا انکار ہے حافظ ابن القیمؒ نے ’’الجیوش المرسلہ‘‘ میں بسط سے لکھا ہے کہ اسلامی تعلیم کے حصہ عقائد (مسئلہ اسماء وصفات، توحید، بعث ونشر وغیرہ) پر کتاب مجید (اور سنت صحیحہ) نے اس قدر تفصیل اور وضاحت سے بحث کی ہے کہ خیر القرون کے افاضل نامدار (صحابہ کرامؓ) کو اس کے متعلق کبھی کوئی اشتباہ دامنگیر نہیں ہوا۔ پھر لطف یہ ہے کہ اہل ہوی نے (مرزاقادیانی کی طرح) ہمیشہ اسی حصہ کو تختۂ مشق بنایا۔ اسی حصہ میں خلاف وشقاق کی وجہ سے بے شمار مبتدع فرقے پیدا ہوئے۔ جن میں سے ہر ایک دوسرے کی تکفیر کرتا ہے۔ (امام ابو منصور عبدالقاہر تمیمی بغدادی کتاب الفرق ص۴۲۹) میں لکھتے ہیں۔ ’’واہل الاہواء الضالۃ من القدریۃ والخوارج والروافض والنجاریۃ والجہمیۃ والمجسمۃ والمشبہۃ ومن جری مجرا۰ ومن فرق الضلال یکفر بعضہم بعضا واما الانواع التی اختلفت فیہا ائمۃ الفقہ واہل السنۃ من