احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
’’قال اﷲ تعالیٰ ام حسب الذین اجترحوا السیئات ان یسبقونا ساء ما یحکمون‘‘ {کیا مجرموں کو یہ گھمنڈ ہے کہ وہ ہماری گرفت سے بچ نکلیںگے؟ (ہرگز نہیں) یہ ان کا نہایت ہی برا فیصلہ ہے۔} باب دوم … منکرین ختم نبوت کے احکام میں حامیان مرزائیت کے ارشادات کا خلاصہ وقت آگیا ہے کہ آئندہ ہم اسلامی عدالت عالیہ کا قطعی اجماعی، اور مفصل فیصلہ سپرد قلم کریں۔ لیکن اس مبحث میں کچھ لکھنے سے پیشتر ضروری ہے کہ حامیان فرقہ مرزائیہ کے مزعومہ شرعی دلائل کا خلاصہ ذکر کریں۔ تاکہ بحث میں سہولت ہو اور نظم سخن قائم رہے۔ تاریخ حال اور ماضی قریب کے نشیب وفراز کے مختلف ادوار میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حمایت مذکورہ کے فقط تین مبنیٰ ہیں جن میں سے کسی نہ کسی پر حمایت مذکورہ کی تان آکر ٹوٹتی ہے۔ ایک چوتھا ڈھکوسلا رہے مسٹر محمد علی صاحب ایم۔اے اور ان کے ’’چار ہائیکورٹ‘‘ افسوس کہ یہ کوئی شرعی ثبوت نہیں اور بجائے مفید ہونے کے مضر ہے۔ جیسے ہم مختصراً لکھ آئے ہیں۔ جناب مسٹر محمد علی صاحب کی طبیعت میں جدت کا رنگ ہے۔ خداہی کو روشن ہے کہ آیا یہ جدت کنٹریری کے لاٹ پادری کے فونٹن پن کا ’’اعجاز‘‘ ہے۔ جو مرزاقادیانی نے عالم رؤیا میں ان کو عطاء فرمایا تھا۔ یا اس کا کوئی اور باعث ہے۔ لیکن اتنا تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ عموماً نئی بات کہنے کے عادی واقع ہوئے ہیں۔ مثلاً کشمیر کو ’’ربوہ‘‘ ثابت کرنا چاہا تو جھٹ آپ انجینئر بن کر سطح سمندر سے لگے ناچنے، ارشاد ہوا کہ کشمیر کی بلندی سطح سمندر سے چونکہ تقریباً چار ہزار فٹ ہے اس لئے کشمیر ’’ربوہ‘‘ ہے اورقرآن کریم کی آیت ’’واوینا ہما الیٰ ربوۃ ذات قرار ومعین‘‘ سے مراد وہی کشمیر ہے۔ لیکن آپ نے یہ نہ بتلایا کہ ’’ربوہ‘‘ کے معنوں میں آپ سطح سمندر سے زیادہ سے زیادہ بلندی لیںگے یا کم از کم بصورت اوّل کشمیر ’’ربوہ‘‘ نہیں۔ بلکہ سوئٹرزلینڈ کی کوئی چوٹی ہوگی اور بصورت ثانی کراچی کا محلہ کھڈہ بھی ربوہ ہے۔ بلکہ ربع مسکون میں کوئی ایسی جگہ نہ ہوگی جو ربوہ کا مصداق نہ ہو۔ ایک شخص کسی عمیق ترین گڑھے میں پڑا ہے۔ مگر حضرت امیر فرمائیںگے ربوہ پر بیٹھا ہے۔ کوئی کوئیں میں گر کر اس کی تہ میں دم توڑ رہا ہے۔ مگر فونٹن پن والے فرمائیںگے ربوہ پر بیٹھا ہے۔