احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
کیا کسی نبی کو ناجائز خوشامد کی ضرورت پڑسکتی ہے؟ پنجابی نبی مرزاغلام احمد قادیانی کی ٹوڈیت کا ثبوت مرزاغلام احمد قادیانی ماہ جون۱۸۳۹ء میں پیدا ہوا۔ آپ نے ۱۸۶۴ء میں سیالکوٹ میں بطور اہلمد ملازمت اختیار کی۔ ترقی کے خیال سے ۱۸۶۸ء میں مختاری کا امتحان دیا۔ لیکن فیل ہوگئے۔ اس ناکام سے بددل ہوکر اور ملازمت چھوڑ کر اپنے وطن قادیان میں چلے آئے۔ شہرت طلبی کی تدابیر سوچنے لگے۔ اتفاق یا مرزاقادیانی کی خوش قسمتی سے یہ وقت تھا کہ عیسائیوں اور آریوں کی طرف سے اسلام پر اعتراضات اور حملے ہورہے تھے۔ مرزاقادیانی لکھے پڑے تو تھے ہی موقع کو غنیمت سمجھ کر کر قلم ہاتھ میں لیا اور ۱۸۸۰ء میں براہین احمدیہ نامی کتاب کی تالیف وترتیب شروع کی۔ جس کے لئے اسلام کے نام پر چندے کی اپیلیں شائع کی گئیں۔ ان اپیلوں کے جواب میں مسلمانوں نے فراخ دلی سے روپیہ دیا۔ اس کتاب کی تالیف کا سلسلہ ۱۸۸۴ء میں ختم ہوا۔ اس دوران میں مرزاقادیانی نے پروپیگنڈا کے فن میں مہارت تامہ پیدا کرنے کے علاوہ کافی شہرت بھی حاصل کر لی۔ مختلف دعاوی آپ نے اس اثناء میں ایران کے مدعی مہدویت علی محمد بات اور مدعی نبوت اورمسیحیت بہاء اﷲ کی تالیفات اور ان کے دعاوی ودلائل کا مطالعہ شروع کیا۔ جن سے مرزاقادیانی کو اپنے عزائم ومقاصد میں بڑی مدد ملی۔ چنانچہ آپ نے ۱۸۹۱ء میں مسیح اور مہدی ہونے کا اعلان کردیا اور اس کو کافی نہ سمجھ کر ۱۹۰۱ء میں صریح الفاظ میں نبوت کا دعویٰ کیا۔ عیسائیوں کا مسیح اور مسلمانوں کا مہدی اور نبی بننے کے بعد آپ نے ہندوؤں پر بھی کرم فرمائی ضروری سمجھی۔ چنانچہ ۱۹۰۴ء میں کرشن اوتار ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کے بعد اس قدر گوناگوں دعاویٰ کئے کہ بس وہ اپنی مثال آپ ہی ہیں۔ حکومت کی چوکھٹ پر جانے کی ضرورت نبوت ورسالت کا عظیم الشان دعویٰ (جس کے مدعی کو محمد مصطفیﷺ کے بعد امت مرحومہ کے تمام اکابر واصاغر اور اولین وآخرین کافر سمجھتے رہے ہیں) ایسا نہ تھا کہ مسلمان اس کو تسلیم کر لیتے۔ دوسری طرف کرشن اوتار اور مسیحیت کا دعویٰ بھی ہندوؤں اور عیسائیوں کے نزدیک مضحکہ خیز تھا۔ اس لئے سب قوموں نے مرزاقادیانی کی مخالفت کی اور ان کے من گھڑت دعاوی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ مرزاقادیانی اپنے ان دعاوی میں سچے اور مامور من اﷲ ہوتے تو