احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
مسئلہ پر مستقل کتاب تصنیف کی ہے۔ جس میں لکھا ہے کہ حضورﷺ کی ولادت سے (۱۸) صدی بعد ایک زعیم پیدا ہو گا۔ جو مجوسی حکومت کو ازسر نو قائم کر کے تمام روئے عالم پر مستحکم مجوسی سلطنت کرے گا۔ (الفرق ص۲۷۱) اسی قسم کی خرافات متناقضہ سے متأثر ہوکر اور اسی خبیث جذبہ کے ماتحت یزید بن ابی انیسہ خارجی عجمی (ساکن مرو) نے خالص عجمی نبوت کا پادر ہوا خیال گھڑا۔ جو نصوص قطعیہ کے سراسر خلاف، اور کفر ومجوسیت ہے۔ نیز یہی رقابت کا جذبہ ہے۔ جس کے تحت میں خوارج نے اپنے لیڈروں کو جو ربیعہ وغیرہ اقوام سے تعلق رکھتے تھے۔ امام وقت قرار دے کر ان کے مخالفین کی تکفیر کی۔ بغدادی لکھتے ہیں۔ ’’خلاف قول الخوارج بامامۃ زعمائہم الذین کانوا من ربیعۃ وغیرہم کنافع بن الارزق الحنفی ونجدۃ بن عامر الحنفی وعبداﷲ بن وہب الراسبی وامثالہم عناداً منہم لقول النبیﷺ الائمۃ من القریش (الفرق ص۳۴۰،۳۴۱)‘‘ {خوارج نے حضورﷺ کے ارشاد الائمہ من قریش کا عنادا خلاف کرتے ہوئے اپنے خود ساختہ لیڈروں کو امام وقت قرار دیا۔ (ان کے تمام مخالفین کو جہنمی اور کافر قرار دیا) جو اکثر ربیعہ سے تھے۔ جیسے نافع بن ارزق، نجدہ بن عامر (ازقوم حنفیہ) عبداﷲ بن وہب راسبی وغیرہ۔} مرزاقادیانی چشم براہ تھے۔ آپ نے اس خیال کو لبیک کہا اور خود بدولت نے بے دھڑک اپنی نبوت کا اعلان کر دیا۔ رقابت عجم کے ہولناک نتائج عجم گو عرب کے سیلاب سے بہ نکلا۔ عرب نے ان کی سلطنتوں کو تہ وبالا کر کے عربی حکومت کی بنیادیں استوار کیں۔ پھر عجم مشرف باسلام بھی ہوئے۔ یہ سب کچھ ہوا۔ مگر آتش رقابت کا جذبہ بحالہا قائم رہا۔ عجم خواہ ایرانی تھے یا بربر۔ ہندی وترک تھے یا خزر۔ ان تمام کے قلوب جوش رقابت سے کبھی خالی نہیں ہوئے۔ تاریخ اسلام کا ماہر اس اہم نکتے کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔ حضرت شیخ مہاجر الحاج مولانا محمد عبید اﷲ عم فیضہم اپنی کتاب ’’التمجید فی ائمۃ التجدید‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’رقابت مذکور نے نہ صرف سیاسی، اقتصادی، معاشرتی میدانوں میں تصادم پیدا کیا۔ بلکہ بعض خالص مذہبی، معرکۃ الاراء مسائل بھی اسی کے طفیل پیدا ہوئے۔ خلق قرآن کا مسئلہ بھی عجمی رقابت کی خبیث اختراع ہے۔‘‘