احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
نوٹ: جب مراق کے سبب سے ہو تب اسے مالیخولیا مراقی کہتے ہیں۔ (مخزن حکمت ص۱۳۵۱ ج۲ طبع پنجم) اقسام مرض مالیخولیا بحسب محل اوسہ قسم است اوّل آنکہ بسبش مخصوص بنفس دماغ باشد واین رامالیخولیا دماغی گوئیند۔ دوم آنکہ سبب ادعام درجمیع بدن وعروق باشد غیر قلب ودماغ وازاں بخار بسوئے دماغ مرتفع گردد واین را مالیخولیا عمومی گوئیند۔ سوم آنکہ سبب آں درعضوئے خاص مشارک دماغ باشد۔ پس اگر سبب درآلات غذا بود مانند معدہ ومراق این قسم را مراقی گوئیند۔ (اکسیر اعظم ج۱ ص۱۸۶، مطبع نولکشور) خلیفہ اوّل حکیم نوردین صاحب کی رائے ’’مالیخولیا بحسب محل سبب تین قسم پر ہے۔ اوّل دماغی جس کا محل وقوع دماغ ہے۔ اطباء اس کو شرالاصناف کہتے ہیں۔ دوم قلب اور دماغ کے سوا جس کا محل تمام بدن ہو اور تمام بدن سے بخارات دماغ کی طرف چڑھیں یہ تمام اقسام مالیخولیا سے اسلم ہے۔ سوم امعاء میں رویہ فضلات سے یا معدہ کے سوداوی ورم سے یا باب الکبد کے ورم سے یا جگر اور امعاء دونوں سے یا عروق دقاق سے یا ماساریقا کے سوداوی بلاورم سدہ سے یا ماساریقا کے ورم سے بخارات نکل کر غشاء مراق تک پہنچیں اور مراق سے اٹھ کر بخارات دماغ کی طرف جائیں اور مالیخولیا پیدا کریں۔ اس کو مالیخولیامراقی کہتے ہیں۔ چونکہ مالیخولیا جنون کا ایک شعبہ ہے اور مراق مالیخولیا کی ایک شان ہے اور مالیخولیا مراقی میں دماغ کو ایذا پہنچنی ہے۔ اس لئے مراق کو سر کے امراض میں لکھا گیا ہے۔‘‘ (بباض نورالدین جزء اوّل ص۲۱۱، مطبع وزیر پریس ۷؍دسمبر ۱۹۲۸ئ) علامات مالیخولیا ۱… علامات مالیخولیا میں تغیر فکر وگمان علی العموم عادت اور ان وضعوں اور شکلوں کے موافق ہوا کرتا ہے۔ جو مریض کے خیال میں بحالت صحت جمی ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک کمہار اپنے آپ کو یہ خیال کرتا تھا کہ میں مٹی کا برتن ہوگیا ہوں اور وہ اس خوف سے کہ کہیں ٹوٹ نہ جاؤں۔ آدمیوں اور دیواروں کے قریب بھی نہ جاتا تھا۔ دوسرے شخص کو جو مرغے خریدتا اور انہیں پال کرموٹا کرتا پھر انہیں بیچا کرتا تھا۔ یہ خیال ہوگیا تھا کہ میں مرغ ہوگیا ہوں۔ چنانچہ وہ بلندیوں پر چڑھتا اور پہلو پر اپنے بازو مرغوں کی مانند مارتا اور بانگ دیتا تھا۔ دوسرے مریض کو جو سپیروں (سانپ والوں) کے حلقہ میں اکثر جایا کرتا یہ خیال ہوگیا تھا کہ ایک سانپ ہمارے پیٹ میں گھس