احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
تیس سال تفریق کرنے کے بعد نوسواکتالیس برس باقی رہیںگے۔ بالفاظ دیگر مرزاقادیانی نے جب کتاب اکمال الدین کے متعلق ہزار برس سے زیادہ کی تصریح کی تو اس وقت کتاب کے مصنف کو انتقال کئے ہوئے نوسو اکتالیس برس ہوچکے تھے۔ اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ مرزاقادیانی اور ان کے مرید حکیم خدابخش کے اقوال مذکورہ بالا میں کس قدر صداقت ہے۔ اس کے باوجود آپ دعوائے نبوت سے ذرا بھر شرم محسوس نہیں کرتے۔ سعدی نے صحیح فرمایا ہے ؎ تو براوج فلک نہ دانی چیست چوں ندانی کہ درسرائے توکیست کتاب اکمال الدین کی حیثیت اور اس کا موضوع اس کتاب کا پورا نام ’’اکمال الدین واتمام النعمۃ فی اثبات الغیبۃ وکشف الحیرۃ‘‘ ہے۔ کتاب کا موضوع مسئلہ غیبت امام منتظر ہے۔ مسئلہ غیبت ورجعت امام حضرات اہل تشیع کا مشہور عقیدہ ہے۔ جس کا خلاصہ فرقہ ٔ اثناء عشریہ (قطعیہ) کے یہاں یہ ہے کہ امام ابوالقاسم محمد بن الحسن العسکری صحیح قول کے مطابق (بہ تصریح ابن خلکان) ۲۵۶ھ کو پیدا ہوئے اور نوسال کی عمر میں ۲۶۵ھ کو شہر سر من رأی کی ایک غار میں والدہ کے دیکھتے دیکھتے گھس گئے۔ پھر اب تک واپس نہیں آئے۔ اخیر زمان میں غار سے نکلیں گے اور اسلام پھیلائیںگے۔ چیستان غیبت میں اختلاف آراء حضرات اہل تشیع کے تقریباً تمام فرقوں میں مسئلہ غیبت سے دلچسپی پائی جاتی ہے۔ اکثر فرقے کسی نہ کسی امام کی غیبت ورجعت کے قائل ہیں۔ بقول ابن حزم (کتاب الملل ج۴ ص۱۷۹) دراصل شیعہ کے تین فرقے ہیں۔ (۱)زیدیہ۔ (۲)امامیہ۔ (۳)غالیہ۔ ۱… زیدیہ میں سے فرقۂ جارودیہ کا عقیدہ ہے کہ محمد بن عبداﷲ حسنی (نفس زکیہ) زندہ ہیں۔ واپس تشریف لائیںگے۔ مقام ’’احجار الزیت‘‘ (مدینہ منورہ) میں شہید ہونے والا کوئی دوسرا شخص تھا۔ جس پر ان کی صورت ڈال دی گئی تھی۔ زیدیہ کا ایک دوسرا گروہ محمد بن قاسم حسینی طالقانی کا منتظر ہے۔ جو ایام معتصم باﷲ میں قتل ہوچکے۔ ان کا ایک اور گروہ یحییٰ بن عمر حسینی (بغدادی نے کتاب الفرق میں ان کا نام محمد بن عمر دیا ہے) کا منتظر ہے۔ حالانکہ آپ متقین کے عہد میں محمد بن عبداﷲ بن طاہر کے ہاتھوں فوت ہوچکے ہیں۔