احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
فصل دوم جواب شبہ ثانی اور مسئلہ تکفیر اہل قبلہ شبہ اوّل کے جواب میں جن صریح واقعات کا ذکر ہوا ہے۔ ان کے سمجھ لینے کے بعد اہل قبلہ کی تکفیر وعدم تکفیر کا مسئلہ خود بخود حل ہو جاتا ہے۔ مسئلہ مذکورہ کی اہمیت علامہ محمود بن احمد حنفی قونوی متوفی ۷۷۰ھ شرح عقیدہ طحاویہ ص۲۴۶ میں اس مسئلہ کی اہمیت بدیں الفاظ ظاہر فرماتے ہیں۔ ’’واعلم رحمک اﷲ وایانا ان باب التکفیر وعدم التکفیر باب عظمت الفتنۃ والمحنۃ فیہ وکثر فیہ الافتراق وتشتت فیہ الاھواء والارآء وتعارضت فیہ دلائلہم‘‘ {واضح رہے کہ (اہل قبلہ کی) تکفیر وعدم تکفیر کا مسئلہ مسلمانوں کے لئے بہت سی مصیبتوں، کئی ایک فتنوں کا باعث بنا۔ (کیونکہ ہر بیدیں، ملحد، زندیق، دجال اس کی آڑ میں اپنی خرافات کی تبلیغ کرتا اور کراتا ہے) اس کے حل کرنے میں مذاہب اور خیالات مختلف اور دلائل بظاہر متعارض معلوم ہوتے ہیں۔}مسئلہ کی تاریخ ’’اہل قبلہ‘‘ سے جہاد نہ کرنے کا مشورہ سب سے پہلے حضرت فاروق اعظمؓ نے اس وقت پیش کیا جب کہ حضرت صدیق اکبرؓ مرتدین سے برسرپیکار ہونے کو تیار ہوگئے تھے۔ صحیحین کی روایت کے الفاظ حسب ذیل ہیں۔ ’’لما توفی رسول اﷲﷺ واستخلف ابوبکر بعدہ وکفر من کفر من العرب قال عمر بن الخطاب لا بی بکر کیف تقاتل الناس وقد قال رسول اﷲﷺ امرت ان اقاتل الناس حتیٰ یقولوا لا الہ الا اﷲ، فمن قال لا الہ الا اﷲ عصم منی مالہ ونفسہ الا بحقہ وحسابہ علی اﷲ فقال ابوبکر واﷲ لا قاتلن من فرق بین الصلوٰۃ والزکوٰۃ فان الزکوٰۃ حق المال۰ واﷲ لو منعونی عناقاً کانوا یؤدونہا الیٰ رسول اﷲ صلعم لقاتلتہم علی منعہا۰ قال عمر فواﷲ ماھوالا ان رأیت ان اﷲ شرح صدر ابی بکر للقتال فعرفت انہ الحق (مشکوٰۃ)‘‘ {حضورﷺ کے انتقال کے بعد جب صدیق اکبرؓ خلیفہ ہوئے اور عرب کے مرتدین سے جہاد کرنے کے لئے آپ تیار ہوئے تو فاروقؓ نے صدیقؓ