احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
کیا مرزائی سیکرٹری اپنے مرزاقادیانی کی اس بات کو قرآن کی آیت بالا سے ثابت کر سکتے ہیں کہ الیہ سے مراد روح عیسیٰ کا علیین یا آسمان کی طرف اٹھایا جانا ہے یا یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ رفع کا معنی موت ہے تو جیسا مرزاقادیانی رفع سے مراد موت اور الیہ سے مراد علیین لیتے ہیں۔ اسی طرح ہم نے حدیث میں ینزل سے آسمان سے اترنا مراد لیا ہے۔ اس میں جھوٹ اور فریب کا کیا دخل ہے؟ ج… قرآن مجید میں ہے۔ ’’أ امنتم من فی السمائ‘‘ {کیا تم اس سے بے خوف ہوگئے ہو جو آسمان میں ہے۔} بتلائیے! اﷲتعالیٰ تو ہر جگہ ہے۔ ’’الا انہ بکل شیٔ محیط‘‘ پھر اس آیت میں یہ کیوں فرمایا کہ اﷲ آسمان میں ہے؟ اس سے معلوم ہوا کہ ’’الیہ‘‘ (اﷲ تعالیٰ کی طرف) سے مراد آسمان کی طرف ہے۔ تو جب قرآن سے ثابت ہوگیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲتعالیٰ نے آسمان کی طرف اٹھالیا۔ تو حدیث میں نزول کے معنی آسمان سے اترنا ہی ہوگا۔ خواہ وہاں آسمان کا لفظ نہ لکھا ہوا ہو۔ مثلاً ایک شخص کے متعلق یقینی علم ہے کہ وہ حج پر گیا ہوا ہے تو جب وہ واپس آئے گا تو لوگ کہیںگے کہ فلاں صاحب واپس آگئے اور مراد حج سے واپس آنا ہی ہوگا۔ کچھ تو سمجھ سے کام لیا کریں۔ باقی رہا مرزاقادیانی کا یہ لکھنا کہ نزیل مسافروں کو کہتے ہیں تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ حضرت مسیح بن مریم کا سفر کہاں سے کہاں تک ہوگا۔ وہ آپ ہی بتادیں تاکہ حدیث کا مطلب واضح ہو جائے۔ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام زمین میں کسی جگہ مقیم ہیں کہ وہاں سے تشریف لے آئیںگے۔ مرزاقادیانی کا چیلنج مرزائی سیکرٹری نے کتاب البریہ سے جو مرزاقادیانی کا چیلنج نقل کیا ہے تو اس میں بھی قادیانی آنجہانی نے تلبیس سے کام لیا ہے۔ کیونکہ خود ہی ایک عبارت لکھ دی اور علماء کو چیلنج دے دیا کہ کسی حدیث سے ایسا ثابت کر دو۔ حالانکہ چیلنج مدعی کے اقرار کی بناء پر ہوا کرتا ہے اور یہاں علماء نے یہ دعویٰ ہی نہیں کیا کہ حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے۔ بلکہ علماء اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھایا جانا تو قرآن سے ثابت ہے اور آسمان سے نازل ہونا حدیث سے ثابت ہے۔ یعنی پہلی بات جب قرآن سے ثابت ہے تو پھر حدیث میں اس کے بیان کی ضرورت ہی