احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
’’اب بتلاؤ کہ اس قدر تحقیقات کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مرنے میں کیا کسر رہ گئی۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۹، خزائن ج۱۷ ص۱۰۱) ’’کبرت کلمۃ تخرج من افواہم ان یقولون الا کذباً‘‘ یقینا آپ اس حربے سے حضرت مسیح علیہ السلام کو نہ ’’مار‘‘ سکے۔ رہے وفات مسیح کے لئے آپ کے دوسرے حربے۔ سو وہ اس وقت موضوع بحث سے خارج ہے۔ تکمیل مرزاقادیانی بقول کسے ’’الغریق یتشبث بکل حشیش‘‘ سرگردان ہیں کہ کس طرح سے حضرت مسیح کی قبر کشمیر میں تیار کی جائے۔ اس لئے وہ ہر صدا پر کان دھرتے اور ہر سنی سنائی پر ایمان لاتے ہیں۔ انہیں خود بھی معلوم ہے کہ الہام کا دامن چھوڑ کر میں نے ناحق مصیبت اپنے سر لی۔ معاملہ پیچدار ہے اور منزل کٹھن ہے۔ مگر مرزاقادیانی ہیں کہ ہمت نہیں ہارتے۔ آپ نے بسلسلہ مسیح ہندوستان میں ایک اور انوکھی دلیل بھی ذکر کی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے۔ ’’حال میں ایک انجیل تبت سے دفن کی ہوئی نکلی ہے۔ جیسا کہ وہ شائع بھی ہوچکی ہے۔ بلکہ حضرت مسیح کے کشمیر آنے کا یہ ایک دوسرا قرینہ ہے۔‘‘ (واہ اردوئے معلی۔ یہ تو جب ہوکہ انجیل فقط مسیح ہی کی کتاب کا نام ہو۔ حالانکہ ایسا نہیں) ہاں یہ ممکن ہے کہ اس انجیل کا لکھنے والا بھی واقعات کے لکھنے میں غلطی کرتا ہو۔ جیسا کہ پہلی چار انجیلیں بھی غلطیوں سے بھری ہوئی ہیں۔ مگر ہمیں اس نادر اور عجیب ثبوت سے بکلی منہ نہیں پھیرنا چاہئے جو بہت سی غلطیوں کو صاف کر کے دنیا کو صحیح سوانح کا چہرہ دکھلاتا ہے۔‘‘ (ست بچن ص ز، خزائن ج۱۰ ص۳۰۷حاشیہ) نیز لکھا ہے۔ ’’حال میں جو تبت سے ایک انجیل کسی غار سے برآمد ہوئی ہے۔ جس کو ایک روسی فاضل نے کمال جدوجہد سے چھپوا کر شائع کر دیا ہے… یہ واقعہ بھی کشمیر کی قبر کے واقعہ پر ایک گواہ ہے۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۱۸ حاشیہ، خزائن ج۱۴ ص۳۵۶) فیخلطون مائۃ کذبتہٍ دوسرے موقع پر کہتے ہیں۔ ’’پھر دوسرا ماخذ اس تحقیق کا مختلف قوموں کی وہ تاریخی کتابیں ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ضرور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہندوستان اور تبت اور کشمیر آئے تھے اور حال میں جو ایک روسی انگریز نے بدھ مذہب کی کتابوں کے حوالہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اس ملک میں آنا ثابت کیا ہے۔ وہ کتاب میں نے بھی دیکھی ہے اور میرے پاس ہے۔ وہ کتاب بھی اس رائے کی مؤید ہے۔‘‘ (کشف الغطاء ص۲۴، خزائن ج۱۴ ص۲۱۱)