احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
مگر مرزاقادیانی دیکھ رہے تھے کہ غلام آباد ہند میں حکومت نصاریٰ قائم ہے۔ افتراق امت مسلمہ اس کا غیر معمولی مشغلہ ہے۔ اس لئے آپ نے دعویٰ نبوت کیا تو اس شان سے کیا۔ جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا ورسول کو نہیں مانتا۔ میرا منکر کافر ہے۔ (حقیقت الوحی ص۱۶۳، خزائن ج۲۲ ص۱۶۸) ’’میرے منکروں کے پیچھے نماز جائز نہیں۔‘‘ (فتاویٰ احمدیہ ص۱۸) ’’الہامات میں میری نسبت بارہا بیان کیا گیا ہے کہ یہ خدا کا فرستادہ، خدا کا مامور، خدا کا امین، خدا کی طرف سے آیا ہے جو کچھ کہتا ہے اس پر ایمان لاؤ، اور اس کا دشمن جہنمی ہے۔‘‘ (انجام آتھم ص۶۲، خزائن ج۱۱ ص۶۲) ’’کفر دو قسم ہے۔ ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے انکار کرتا ہے اور آنحضرتﷺ کو خدا کا رسول نہیں مانتا اور دوسرے یہ کفر کہ وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اس کو باوجود اتمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے۔ جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتاب میں بھی تاکید پائی جاتی ہے۔ پس اس لئے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے۔ کافر ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۷۹، خزائن ج۲۲ ص۱۸۵) شان تأسیس کی انتہاء حقیقت الوحی کی مذکورہ بالا عبارت میں مرزاقادیانی ’’مسیح موعود‘‘ کے منکر یعنی اپنے منکر کو صریح کافر کہہ چکے ہیں۔ اب اپنی شان مامور من اللہی کو واشگاف کرتے ہیں اور اپنی خانہ ساز نبوت کی نوعیت بھی کھلے الفاظ میں ذکر کرتے ہیں۔ تاکہ آنے والی نسلوں کو ان کے متعلق فیصلہ کرنے میں سہولت ہو۔ لکھتے ہیں: ’’یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اپنے دعویٰ کے انکار کرنے والے کو کافر کہنا یہ صرف ان نبیوں کی شان ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے شریعت اور احکام جدیدہ لاتے ہیں۔ لیکن صاحب شریعت کے ماسوا جس قدر ملہم اور محدث ہیں۔ وہ کیسے ہی جناب الٰہی میں شان رکھتے ہوں اور خلعت مکالمہ الٰہیہ سے سرفراز ہوں۔ ان کے انکار سے کوئی کافر نہیں ہوسکتا۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۳۰ حاشیہ، خزائن ج۱۵ ص۴۳۲) اس عبارت کا مطلب کھلے الفاظ میں یہ ہے کہ مرزاقادیانی اپنے آپ کو مؤسس نبی مانتے ہیں۔ یعنی خداتعالیٰ کی طرف سے شریعت حقہ اسلامیہ کے علاوہ مستقل شریعت اور احکام