احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور ہمیشہ اعلیٰ حکام عزت کی نگاہ سے ان کو دیکھتے تھے اور اخلاق کریمانہ کی وجہ سے حکام ضلع اور قسمت کبھی کبھی ان کے مکان پر ملاقات کے لئے بھی آتے تھے۔ کیونکہ انگریزی افسروں کی نظر میں وہ ایک وفادار رئیس تھے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ ان کی اس خدمت کو کبھی نہیں بھولے گی کہ انہوں نے ۱۸۵۷ء کے ایک نازک وقت میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر اور پچاس سوار اپنے عزیزوں اور دوستوں سے مہیا کر کے گورنمنٹ کی امداد کے لئے دئیے تھے۔ چنانچہ ان سواروں میں سے کئی عزیزوں نے ہندوستان میں مردانہ لڑائی مفسدوں سے کر کے اپنی جانیں دیں اور میرا بھائی مرزاغلام قادر تمون کے پتن کی لڑائی میں شریک تھا اور بڑی جانفشانی سے مدد دی۔ غرض اس طرح میرے بزرگوں نے اپنے خون سے اپنے مال اپنی جان سے اپنی متواتر خدمتوں سے اپنی وفاداری کو گورنمنٹ کی نظر میں ثابت کیا۔ سو انہیں خدمات کی وجہ سے میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ عالیہ ہمارے خاندان کو معمولی رعایا میں سے نہیں سمجھے گی اور اس کے اس حق کو کبھی ضائع نہیں کرے گی۔ جو بڑے فتنہ کے وقت میں ثابت ہوچکا ہے۔ (رسالہ کشف العظاء ص۴ بحوالہ سیرۃ المہدی ص۱۱۱، خزائن ج۱۴ ص۱۸۰) طائفہ مرزائیہ پنجابی نبی کے نقش قدم پر ہزرائل ہائینس پرنس آف ویلز کی خدمت میں مرزائیوں کا ایڈریس یہ اس ایڈریس کی نقل ہے جو مرزائیوں نے ۲۷؍فروری ۱۹۲۲ء کو بوساطت گورنمنٹ پنجاب پیش کیا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امت مرزائیہ بھی اپنے سرکاری نبی مرزاغلام احمد قادیانی کی سنت کے مطابق حکومت برطانیہ کی فرمانبرداری میں اپنا مال وجان قربان کرنا فخر ہی نہیں بلکہ جزو ایمان سمجھتی ہے۔ جناب شہزادہ ویلز! ہم نمائندگان جماعت احمدیہ جناب کی خدمت میں جناب کے ورود ہندوستان پر تہہ دل سے خوش آمدید کہتے ہیں اور اگرچہ ہم وہ الفاظ نہیں پاتے جن میں جناب کے خاندان سے دلی وابستگی کا اظہار کما حقہ کر سکیں۔ لیکن مختصر لفظوں میں ہم جناب کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ اگر ہمارے ملک معظم کو ہماری خدمات کی ضرورت ہو تو بلاکسی عوض اور بدلہ کے خیال کے ہم لوگ اپنا مال اور اپنی جانیں ان کے احکام کی بجا آوری کے لئے دینے کے لئے تیار ہیں۔ حضور عالی! چونکہ ہماری جماعت نئی ہے اور تعداد میں بھی دوسری جماعتوں کے مقابلہ میں کم ہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ جناب کو پوری طرح ہماری جماعت کا علم نہ ہو۔ اس لئے ہم مختصراً