احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
اٹھ کھڑے ہوئے اور تقریر اور تحریر سے اس باطل خیال کے بطلان کو عوام پر اچھی طرح سے ثابت کر دیا اور بذریعہ فیصلہ آسمانی، شہادت آسمانی، معیار المسیح، حقیقتاً المسیح کے وغیرہ وغیرہ کے اپنے مسلمان بھائیوں کو متنبہ کیا کہ ان اباطیل سے بچو۔ ورنہ تمہارے ایمان واسلام کو خطرہ ہے۔ بحمد اﷲ کہ اس کا اتنا اثر ہوا کہ آج مونگیر واطراف مونگیر میں ہر ہر بچہ کو اس کی اطلاع ہے کہ ناقص اور سب سے باطل قرآن وحدیث کے خلاف اگر کوئی خیال ہوسکتا ہے تو وہ مرزائیوں کا ہے۔ ورنہ حضرت مولانا مدظلہ کو ان ہنگاموں سے کیا مطلب اور حضرت مولانا مدظلہ کیوں ایسی باتوں کی طرف توجہ فرماتے۔ اولیاء اﷲ، علمائے حقانی، صوفیائے کرام ایسے امور کی طرف اس وقت توجہ فرماتے ہیں جو دیکھتے ہیں کہ دشمنان دین زور پکڑ رہے ہیں اور بہت زیادہ احتمال ہے کہ اگر وہ اپنی حالت پر اب بھی چھوڑ دئے گئے تو دنیا ضلالت آباد میں جائے گی اور خدا کے خاص بندے خیر الامۃ افراط وتفریط میں پڑ کر بدترین خلائق ہو جائیںگے تو پھر وہ تسبیح کی جگہ اپنی انگلیوں میں قلم کو زیب دیتے ہیں اور درودووظائف معمولہ کی جگہ عقائد باطلہ کی تردید کرتے ہیں۔ کیونکہ : مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے باقی حکیم صاحب کا یہ فرمانا۔ اگر آپ چاہتے تو براہین احمدیہ کا جواب لکھ کر دس ہزار حاصل کر لیتے یا نور الحق کا جواب لکھ کر پانچ ہزار حاصل کر لیتے یا حیات عیسیٰ اسرائیلی علیہ السلام کے زندہ بجسدہ عنصری آسمان پر جانے کی کوئی آیت قرآنی یا حدیث پیش کر کے بیس ہزار حاصل کر لیتے وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کی حقیقت دنیا پر واضح ہوچکی ہے اور یہ سب محض لا یعنی باتیں ہیں اور دھینگا مشتی اور ہنگامہ آرائی ہے۔ ہم لوگ فدایان رحمانی جو کچھ کرتے ہیں محض خداکے واسطے اور لوجہ اﷲ اور اسلام اور دین مبین کی خدمت کے لئے کرتے ہیں۔ جس سے مقصود محض حفاظت دین ہے نہ کسی سے کوئی ذاتی مخاصمت مدنظر ہے نہ اپنی تعلی اورشہرت۔ یہ ان ہی لوگوں کو مبارک ہو جو بندہ زر ہیں ؎ برواین دام برمرغ دگرنہ کہ عنقارا بلند است آشیانہ حکیم صاحب کا ایک افتراء ’’انما یفتری الکذب الذین لا یؤمنون بایٰت اﷲ‘‘