احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
ہی بتاؤ کہ یہ نبوت برطانی (نبوت مرزا) جو جہاد کی بجائے ترک جہاد کی تلقین کرتی ہے۔ اس نبوت ربانی کا بروز (سایہ) ہوسکتی ہے؟ اور تمہیں آنحضرتﷺ سراپا رحمت وبرکتﷺ کا ایک واقعہ سنائیں۔ شاید کہ تمہیں عبرت ہو۔ ہجرت نبوی ہے ترک وطن سنت محبوب الٰہی دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی حضور اکرمﷺ متواتر تیرہ برس تک کفار مکہ کو خدا کی طرف بلاتے رہے۔ انہیں توحید کا پیغام دیا۔ خوش اخلاقی کا درس دیا اور روحانی وانصافی ترقی کے راز بتائے۔ لیکن ان لوگوں کا ذہن اور دماغ اس درجہ تاریک تھا کہ حقانیت کی روشنی اثر نہ کر سکی۔ کفار نے آوازہ توحید کے مقابلہ میں طعن وتشنیع کا ہنگامہ برپا کیا۔ دعاء کے جواب میں سنگباری کی اور خوش خلقی کا جواب بدکرداری سے دیا۔ بایں ہمہ حضور اکرمﷺ خدا کا پیغام سناتے رہے۔ لیکن جب ظلم حد کمال تک پہنچ گیا۔ صبر وتحمل کے پائے ثبات کے ڈگمگانے کا اندیشہ پیدا ہوا تو حضورﷺ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ تم لوگ مدینہ چلے جاؤ۔ تاکہ اس ظلم وستم سے نجات پاسکو۔ اس ارشاد نبویؐ کا خیر مقدم کیا گیا۔ فرزندان توحید اپنے گھروں کو، عزیز واقرباء کو چھوڑ کر ترک وطن کرنے لگے۔ کفار قریش نے جب یہ دیکھا کہ مکہ کی آبادی اب مدینہ کو آباد کرنے لگی تو ان کے اشتعال کا بھرا ہوا پیمانہ چھلکنے لگا۔ انہوں نے ہجرت کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا شروع کیں۔ لیکن اس طرح بھی کامیابی نہ ہوسکی۔ اس کے بعد ہجرت پر آمادہ لوگوں پر مزید ظلم وستم کرنا شروع کیا اور اس سلسلہ میں جس ظلم وتشدد کا اظہار کیاگیا۔ اس کا تصور بھی قابل برداشت نہیں۔ چنانچہ حضرت ہشامؓ جو کہ ایک صحابی تھے۔ جب ہجرت کرنے لگے تو کفار نے انہیں پکڑ کر قید کر دیا اور قید خانہ میں قسم قسم کی اذیتیں پہنچائیں۔ حضرت ابوسلمہؓ جب ہجرت کے لئے اونٹنی پر سوار ہوگئے تو قریش نے ان کا محاصرہ کر لیا اور کہنے لگے کہ تمہاری بیوی ہماری لڑکی ہے۔ اسے جانے نہیں دیںگے۔ اسی طرح تمہارا لڑکا بھی چونکہ ہماری بیٹی کی گود میں ہے۔ اس لئے اسے بھی ہجرت کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ابو سلمہؓ نے انہیں بہت سمجھایا۔ لیکن ان کی معقول باتوں کا جواب بے پرواہی کے سابقہ ہنسی سے دیاگیا۔ آخرکار وہ بیوی بچے دونوں کو چھوڑ کر مدینہ پہنچ گئے۔ اس قسم کے متعدد واقعات رونما ہوئے۔ لیکن ہجرت کا