احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
تعریضات کیں۔ گوحق پوشی کی نیت سے انہوں نے اپنے جلسہ کا وقت ظاہر نہیں کیا۔ مگر ہم لوگوں نے بہ نیت اظہار حق مولوی صاحب موصوف کو اطلاع دی کہ نہ آپ خود ہمارے یہاں تشریف لاتے ہیں۔ نہ ہم کو بلاتے ہیں۔ لہٰذا اب ہم لوگ آپ کے جلسہ میں حاضر ہوتے ہیں۔ بحث کے لئے تیار ہو جائیے۔ اس اطلاع کے بعد ہم لوگ ان کے جلسہ میں پہنچ گئے۔ حاضرین جلسہ کی تعداد معقول تھی اور دونوں طرف کے لوگ تھے۔ مولوی عبدالماجد قادیانی سے گفتگو ہوئی۔ شرائط مناظرہ اور تجویز حکم کی بحث میں مولوی عبدالماجد قادیانی کسی پہلو پر قائم نہیں ہوئے۔ ہر فریق کے لوگوں نے مولوی صاحب کی باطل پرستی کا اچھی طرح احساس کیا۔ بالآخر جناب مولانا عبدالشکور صاحب نے کہا کہ میں بغیر کسی شرط کے جس طرح آپ چاہیں اور جہاں فرمائیں آپ سے بحث کرنے کے لئے آمادہ ہوں۔ مولوی عبدالماجد قادیانی کی پریشانی اس وقت قابل دید تھی۔ ہر طرف سے راہ فرار، مسدود پاکر بادل ناخواستہ ان کو منظور کرنا پڑا اور دوسرے دن بتاریخ ۱۰؍مارچ ۱۹۱۷ء بعد مغرب انہیں کے مکان پر بحث طے پاگئی۔ اب سنئے کہ حق کے سامنے باطل کس طرح سرنگوں ہوا وقت مقررہ پر ہم اور ہمارے علماء مولوی عبدالماجد قادیانی کے مکان پر پہنچے، مجمع معقول تھا۔ نہ صرف پورینی بلکہ بھاگلپور، چمپانگر اور برہ پورہ وغیرہ کے مسلمان بھی تھے۔ مرزائی صاحبان میں بھی شاید ہی کوئی شریک جلسہ نہ ہو۔ جناب مولوی علاء الدین صاحب وکیل جو مسلمان ہیں۔ لیکن مولوی عبدالماجد قادیانی سے بھی ان کے تعلقات ہیں۔ وہ مولوی عبدالماجد قادیانی کے شاگرد بھی ہیں۔ صدر مجلس مقرر ہوئے۔ مولوی عبدالماجد قادیانی کا سب سے پہلا اصرار ۱؎ یہ ہوا کہ جناب مولوی محمد عبدالشکور صاحب کو دوسرے علماء زبانی یا تحریری کسی قسم کا مشورہ نہ دیں۔ حتیٰ کہ کتابوں کی عبارات محولہ کے نکالنے میں بھی کوئی ان کی مدد نہ کرے۔ قطع عذر کے لئے ان کی یہ ضد بھی مان لی گئی اور بحث شروع ہوگئی۔ ۱… جناب مولانا محمد عبدالشکور صاحب نے ایک مختصر خطبہ حمد وصلوٰۃ پڑھ کر دس منٹ میں اپنی تقریر ختم کر دی۔ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے نبی ورسول ہونے کا بلکہ افضل الانبیاء ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ بعض انبیاء پر تو صراحۃً اپنی فضیلت بیان کی ہے ۱؎ یہ اصرار نہایت روشن کرتا ہے کہ مولوی صاحب کو اظہار حق منظور نہیں ہے۔ بلکہ اپنا راز کھل جانے سے ڈرتے ہیں۔