احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
قاتلانہ حملہ قادیان ۷؍اگست تقریباً پانچ بجے منشی فخرالدین ملتانی اور حکیم عبدالعزیز جبکہ پولیس چوکی میں ایک اطلاع دینے کے لئے جارہے تھے۔ قاتلانہ حملہ ہوگیا۔ حملہ آور احمدی بیان کیا جاتا ہے اور گرفتار ہوگیا۔ ہر دو مجروحین گورداسپور ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔ ذیل میں منشی فخرالدین صاحب ملتانی نے اخراج کے بعد جو پہلا بیان شائع کیا ہے اس کو درج کیا جاتا ہے۔ پراسرار اخراج کی حقیقت میرے اخراج کے اعلان میں یہ وعدہ کیاگیا تھا کہ دو تین روز تک تفصیلی بیان شائع کیا جائے گا۔ اس لئے میں مطمئن تھا کہ تفصیلی بیان کے پڑھنے پر دوستوں کو میرے ان جرائم کا اندازہ ہو جائے گا۔ جن کی پاداش میں میرے جیسے تیس سالہ خادم سلسلہ ومہاجر کو ایسی سنگین سزا دی گئی ہے۔ لیکن مجھے افسوس ہے آج دو ہفتہ سے زیادہ گذر رہا ہے کہ کسی خاص مصلحت کے ماتحت تفصیلی بیان شائع نہیں کیاجاسکا۔ مگر اس وقفہ خاموشی میں میرے متعلق طرح طرح کے جھوٹے اور مکروہ پروپیگنڈے کر کے میرے خلاف خواہ مخواہ منافرت اور حقارت عامہ پھیلائی جارہی ہے کہ گویا میں چھپا ہوا احراری یا پیغامی یا بابی وغیرہ تھا۔ یا اب ہوں۔ یا ان سے کسی طرح کی سازش ہے۔ العیاذاباﷲ! پھر اسی سزا کے دوران میں جب کہ ۲۴گھنٹہ میرے گھر کی چاروں طرف سے ناکہ بندی کی ہوئی ہے اور میری ہر حرکت وسکون پر کڑی نگرانی ہے۔ میرے گھر سفید پوش آدمی آتے ہیں اور میرے گھر کی تاکی توڑی گئی۔ بدقسمتی سے وہ سفید پوش سودیشی چور ہاتھ سے نکل گیا۔ مگر اس کے متعلق یہ مشہور کیا جارہا ہے کہ گویا ہم نے خود تاکی توڑ کر شور ڈالدیا۔ ان دونوں امور کے متعلق مکروہ پروپیگنڈا کرنے والے احمدی دوستوں کو مسیح موعود کے اصول ومعیار صداقت کے ماتحت چیلنج کرتا ہوں کہ ان میں سے ایک یا دو یا سب اپنے اپنے اہل وعیال لے کر میرے مقابل میدان میں نکلیں۔ میں بھی اپنے اہل وعیال لاکر اور اپنے شیرخوار بچہ کو گود میں لے کر خدا کے حضور میں تریاق القلوب کی قسم کھاتا ہوں اور وہ بھی قسم کھاویں۔ میں اپنے بیان کی تصدیق میں اور وہ اپنے بیان کی تصدیق میں۔ پھر اس کے نتیجہ کے لئے خدائی فیصلہ کا انتظار کریں۔ اس فیصلہ کن طریق سے جو حضرت مسیح موعود کا بیان فرمودہ ہے کسی احمدی کو بھی انکار نہیں ہوسکتا۔ میرا یہ بیان ہے کہ میں تادم تحریر ہذا نہ احراریوں اور نہ پیغامیوں سے ملا اور نہ احراریوں سے بذریعہ تقریر وتحریر کسی قسم کی سازش کی۔ حالانکہ بعد اخراج مجھے ان سے ملنے میں کوئی روک نہ تھی۔ اس طرح تاکی توڑنے والے سودیشی سفید پوش آدمی، میں نے اور میرے لڑکے نے اپنی آنکھوں سے صرف دوتین فٹ