احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
نیز یہ بھی واضح ہوگیا کہ جس جذبہ کے تحت ختم نبوت کا انکار کیا جاتا ہے۔ اس کا لب لباب عداوت عرب ومضر ہے۔ اس انکشاف کے بعد مرزاقادیانی کے ذیل کے تلبیسات کی قلعی خود بخود کھل جاتی ہے۔ لکھتے ہیں: ’’اور اس بناء پر خدا نے باربار میرا نام نبی اﷲ اور رسول رکھا۔ مگر بروزی صورت میں میرا نفس درمیان نہیں ہے۔ مگر محمدﷺ اسی لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد ہوا۔ پس نبوت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی۔ محمد کی چیز محمد کے پاس رہی۔‘‘ علیہ الصلوٰۃ والسلام! (ضمیمہ حقیقت نبوت ص۲۶۹) نیز لکھتے ہیں۔ ’’پھر اس کتاب میں اس مکالمہ کے قریب میں یہ وحی الٰہیہ ہے۔ ’’محمد رسول اﷲ والذین معہ اشذاء علی الکفار رحماء بینہم‘‘ اس وحی الٰہیہ میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی۔‘‘ (ضمیمہ حقیقت النبوۃ ص۲۶۱،۲۶۲) نکتہ دیکھا آپ نے! مریدوں کا مال ہتھیانے والے کس طرح غیروں کے اسماء وا علام پر بے تکلف قبضہ کرتے ہیں اور اس میں ان کو خدا سے ذرہ بھر شرم وحیا دامنگیر نہیں ہوتی۔ جہاں تک دجالوں اور کذابوں کی تاریخ کا تعلق ہے۔ مرزاقادیانی اس با ب میں بھی فریدۂ دہر اور یکتائے زمان ہیں۔ الا قبح اﷲ الضرورۃ انہا تکلف اعلیٰ الخلق ادنی الخلائق مرزاقادیانی کی مذکورہ بالا دو عبارتوں سے ایک اور راز سربستہ بھی کھلتا ہے۔ وہ یہ کہ مرزائیوں کا فہیم طبقہ جہاں محمد رسول اﷲﷺ کا کلمہ پڑھتا ہے۔ محمد رسول اﷲ کہتا ہے وہاں اس کی مراد صرف مرزاقادیانی سے ہوتی ہے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو اپنے خود ساختہ نبی کی بعض اہم تصریحات کے مومن ومعتقد نہ ہوئے۔ جو ان کے ہاں صریح کفر ہے۔ اس نکتہ کو ذہن نشین کر لینے کے بعد یورپ میں اشاعت اسلام کے بلند بانگ دعاوی اور سیرت کے جلسوں کی تگ ودو کی حقیقت الم نشرح ہو جاتی ہے۔ ختم المرسلینﷺ نے ایسے گروہ اور افراد کے متعلق صحیح فرمایا ہے۔ ’’المتشبع بما لم یعطہ کلا بس ثوبیٰ زور‘‘ وگرازسرگر فتم قصۂ زلف پریشاں را گذشتہ تصریحات میں ہمارا موضوع سخن یہ تھا کہ مرزاقادیانی نے دعویٰ نبوت میں