احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
بعدازاں خود مقنع کی صورت میں اس شخص کا نام ہشام بن حکیم ہے۔ اس کے چہرے پر ہمیشہ برقعہ رہتا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ میرے جمال جہانتاب کو دیکھنے سے جل جانے کا اندیشہ ہے۔ اسی لئے اس کو مقنع کہتے ہیں۔ کوہ سیام میں اس کا زبردست مستحکم قلعہ تھا۔ جس کی دیوار تقریباً سوفٹ چوڑی تھی۔ قلعہ کے گرداگرد ناقابل عبور خندق تھی۔ خلیفہ مہدی نے معاذ بن مسلم کو ستر ہزار فوج دے کر مقنع کے مقابلہ کے لئے بھیجا۔ بعدازاں سعید بن عمرو الجرشی کو بطور کمک روانہ کیا۔ جنگ کئی سال جاری رہی۔ سعید نے لوہے کی تین سو سیڑھیاں تیار کرائیں۔ تاکہ خندق کو عبور کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ ملتان سے بھینس کی دس ہزار کھالیں منگوائیں۔ جن کو ریگ سے پر کر کے خندق کو پاٹا گیا۔ بڑے معرکوں کے بعد مقنع کی تیس ہزار فوج نے ہتھیار ڈال دئیے اور باقی ماندہ تہہ تیغ کر دی گئی۔ مقنع نے قلعہ میں ایک تنور کے اندر تانبا پگھلا رکھا تھا۔ شکست دیکھ کر تنور میں کود پڑا اور پگھل گیا۔ جب اس کا کچھ پتہ نہ چلا تو اس کے معتقدین نے کہا شروع کیا کہ آخر خدا تو تھا ہی اپنے عرش کی طرف چلا گیا۔ اتنی زبردست طاقت وجمعیت کے ہوتے ہوئے اگر مقنع مذکورہ کفریات بکے تو ان کو دولت وطاقت واقتدار کا نشہ کہا جاسکتا ہے۔ لیکن نصاریٰ کی ابدی غلامی کی تعلیم دینے والے مرزاقادیانی کے پاس بجز خشک مراق اور مرض ہسٹریا کے رکھا ہی کیا ہے۔ سب وشتم میں مرزاقادیانی کی بے رنگی ارشاد رسالت مآبؐ: ’’واذ خاصم فجر‘‘ کے مطابق مرزاقادیانی اس فن میں بھی خصوصی شان کے مالک ہیں۔ خود ہی فرماتے ہیں۔ بد تر ہر ایک بد سے ہے جو بدزبان ہے جس دل میں ہو نجاست بیت الخلا وہی ہے (درثمین اردو ص۸۲) دوسرے موقع پر لکھا ہے۔ ’’گالیاں دینا اور بدزبانی کرنا طریق شرافت نہیں۔‘‘ (ضمیمہ اربعین نمبر۴ ص۵، خزائن ج۱۷ ص۴۷۱) لیکن باایں ہمہ عام فرزندان توحید کی نسبت مرزاقادیانی کے اقوال حسب ذیل ہیں۔ ان العدی صاروا خنازیر الفلا ونسائہم من دونہن الا کلب