احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
برادران! یہ چند ایک شکوے تھے جن کو اتہامات قرار دیاگیا اور جن کی باوجود بڑی تان کھینچ اور احتیاطی واحتیاطی پہلو اختیار کرنے کے بھرے مجمع میں تصدیق ہوگئی اور تفتیش اور تحقیق کا دنیا سے نرالا اور انوکھا طریق تھا کہ ملزم یا مدعاعلیہ کو ان گواہوں پر جرح قدح کا کوئی موقعہ نہیں دیاگیا۔ تاہم خدا کا شکر ہے کہ ان ناواجب اتہامات کی حقیقت طشت ازبام ہوگئی۔ باقی بعض تنخواہ دار اجارہ داروں کی ادھر ادھر کی بے تعلق اور بعض جھوٹی اور خلاف واقعہ باتوں کو دہرا دہرا کر پبلک میں اشتعال پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ جن کو میں خدا کے سپرد کرتا ہوں۔ بہرحال اصلیت یہ تھی جو کسی نہ کسی طرح ظاہر ہوگئی۔ اب احباب اندازہ لگالیں کہ کیا یہ شکوے تھے یا ناواجب اتہام اور کیا یہ ذاتی تھے یا نظام سلسلہ کے کارکنوں پر جیسا کہ اعلان میں ظاہر کیاگیا تھا۔ پس ان امور کو اتنی طوالت دی گئی کہ گویا سلسلہ سے میرا مخلصانہ تعلق نہیں رہا اور سلسلہ کے کارکنوں پر ناواجب اتہام بھی بن گئے اور میری احراریوں سے سازباز بھی ہوگئی اور میں دشمن سلسلہ بھی سمجھاگیا وغیرہ وغیرہ۔ پھر اسی پر بس نہیں۔ تقریر کرتے وقت حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اﷲ بنصرہ کو اس قدر غصہ اور اشتعال آجاتا تھا کہ بے حیا، کمبخت اور خبیث الفطرت وغیرہ طرح طرح کے گندے الفاظ حضور کے منہ سے نکل رہے تھے اور میں اندر ہی اندر مارے شرم کے غرق ہوا جارہا تھا۔ کیونکہ اپنی جماعت کے دوست تو خیر محبت واخلاص میں اس درشت کلامی اور دشنام دہی کا احساس نہیں کرسکتے۔ مگر اس دن بدقسمتی سے غیر احمدی کثرت سے تھے اور پولیس والے بھی تھے۔ ان کا ڈر تھا کہ کم بختوں پر کیا اثر پڑا ہوگا کہ جماعت احمدیہ جیسی پاک جماعت کے حضرت امام کی زبان سے محض اس وجہ سے کہ ان کے اور ان کے بہائیوں کے متعلق ایک شخص نے ذاتی شکوے بیان کئے ہیں۔ ایسے ایسے ناشائستہ اور غیر موزوں سخت الفاظ نکل رہے ہیں۔ حالانکہ اصولاً تو ان کو ذاتی معاملہ میں خود دخل بھی نہ دینا چاہئے تھا۔ بہرحال مختصر سی کیفیت عرض ہے۔ باقی مفصل تقریر شائع ہونے پر اگر ضرورت ہوئی تو عرض کروںگا۔ (خاکسار فخر دین ملتانی قادیان) واہ میر صاحب واہ! (یعنی میر محمد اسحق صاحب) آپ نے میرے جیسے دیرینہ دردیرینہ مصاحب اور واقف رموز واسرار نیاز مند کی اس نیاز مندانہ گذارش پر عمل نہ کیا جو میں نے چند روز قبل ؎ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو کے الفاظ سے آپ تک پہنچائی تھی۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ آپ جیسے بزرگان ملّت کو اپنی پوزیشن صاف کرنے کے لئے جبراً وقہراً اس طرح سرگرم حصہ لینا پڑ رہا ہے۔ اﷲتعالیٰ آپ کے حال زار پر رحم فرمائے۔