احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
مہذب اور جاہل قوموں میں اور فرقوں میں استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن اب زمانہ کی کروٹ بدلنے پر وہ ادنیٰ قومیں بھی ان جھوٹے ہتھیاروں کو چھوڑتی جارہی ہیں۔ مگر اب اس اولڈ فیشن مکروہ ہتھیار کو احمدیہ جماعت قادیان جیسی مہذب اور تازہ بتازہ تربیت یافتہ قوم اختیار کر رہی ہے۔ پس اصل حفاظت تو خدا ہی کی حفاظت ہے۔ جب زمینی گورنمنٹ میجارٹی کے پراپیگنڈا سے لرزاں ہے تو یہاں کے دولت احباب عزیز واقارب جن کا ہر طرح کا دارومدار زندگی اور معاشرت قادیان کی لوکل گورنمنٹ پر ہے۔ کس طرح ہمارا ساتھ دے کر ان مصائب اور رنج وآلام کا تختہ مشق ہوسکتے ہیں۔ جو کسی زمانہ میں احمدیوں سے اٹھا چکے ہیں۔ پس اے میرے خدا تو آپ ہی ہماری حفاظت کر۔ آمین! بالآخر ایڈیٹر الفضل کو عرض کرتا ہوں کہ بہتر ہوگا کہ زبان کو شستہ رکھنے کی کوشش کی جائے۔ ورنہ میں گنبد کی صدا استعمال کرنے پر مجبور ہوںگا۔ پھر نہ شرافت وتہذیب کی دہائی مچانے لگ جانا۔ خدا کے فضل سے مجھے ہر قسم کا لکھنا آتا ہے۔ فخر الدین ملتانی، ۲۹؍جون ۱۹۳۷ئ! ناواجب اتہامات کا راز طشت ازبام حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی تقریر پر مختصر سا تبصرہ لللّٰہ الحمد ہر آن چیز کہ خاطر میخواست آخر آمدز پس پردۂ تقدیر پدید میرے اخراج کے اعلان میں یہ ظاہر کیاگیا تھا کہ فخر الدین کا تعلق سلسلہ سے مخلصانہ نہیں ہے اور بعض ایسی باتوں کی وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی ذات اور سلسلہ کے دوسرے کارکنوں پر ناواجب اتہام لگاتے ہیں۔ سلسلہ سے مخلصانہ تعلق کا علم تو اﷲتعالیٰ ہی کو ہے۔ بظاہر یہ ہے کہ میں بغیر کسی قسم کے جبر اور طمع کے احمدی ہوں اور قادیان میں مقیم ہوں اور مقیم رہنے کا مصمم ارادہ ہے۔ خواہ اس سے بھی زیادہ سے زیادہ رنج وآلام کا تختہ مشق کیوں نہ بننا پڑے اور تاایندم کسی غیر سے کسی قسم کا مذہبی تعلق اشارۃً یا کنایتہ بھی کوئی شخص ثابت نہیں کرسکتا۔ ’’واﷲ علیٰ ما اقول شہید‘‘ دوسری شق تھی ان ذاتی شکوں کی جنہیں ناواجب اتہامات سے موسوم کر کے میرے اخراج کی وجہ قرار دی گئی۔ جماعت سے اخراج تو اب کوئی انسان نہیں کرسکتا۔ کیونکہ میں نے اﷲتعالیٰ کے فضل سے مسیح موعود کا زمانہ پایا اور حضور کے ہاتھ سے احمدیت کا چولا پہنا۔ اب کون ہے جو اسے اتار سکے۔