احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
تمہید قادیان میں جو موجودہ نظام قائم کیاگیا ہے اس سے احمدیت کو کوئی تعلق نہیں ہے۔ مسیح موعود نے جماعت احمدیہ کی بنیاد اس لئے رکھی تھی کہ دنیا میں اس کے ذریعہ اشاعت اسلام ہو اور خدا کی مخلوق کا اخلاق درست ہو۔ دنیا میں امن قائم ہو اور سب سے بڑی بات یہ ہے۔ ایسی پریقین اور محکم جماعت قائم ہو۔ جس کے ذریعہ ملک اور ملت کی آزادی کے لئے بھی بوقت ضرورت کام کیا جاسکے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا۔ آپ کا آخری لیکچر پیغام صلح اس بات کا بیّن ثبوت ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کانگریس جو ملک کی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اس کی کبھی مخالفت نہیں کی۔ بلکہ اپنے آخری لیکچر پیغام صلح میں آپ نے نہایت لطیف پیرائے میں کانگرس کے مطالبات کی حمایت کی ہے۔ لیکن قادیان کا موجودہ نظام انگریزوں کی ایجنٹی سکھاتا ہے اور احمدیوں کو مذہب سے بیگانہ کرتا ہے اور لامذہبیت کی طرف لے جاتا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ کانگرس کی مخالفت اور ذاتی اقتدار پر سب سے زیادہ روپیہ خرچ کیا جاتا ہے اور اس موجودہ نظام کے ماتحت اشاعت احمدیت اور اشاعت اسلام کے لئے قطعاً کوئی کام نہیں کیا جاتا۔ اس لئے جماعت احمدیہ کے اس حصہ میں جس کو اسلام اور احمدیت اور اپنے وطن سے محبت ہے۔ ہمیشہ موجودہ نظام کے خلاف احتجاج بلند ہوتا رہا ہے۔ مگر روپے اور بیجا رعب وداب سے مخلصین کو دبانے کی کوشش کر کے کامیابی حاصل کی گئی۔ ۱۹۳۴ء کے آخر میں ریفارم لیگ نے بھی جماعت کے موجودہ نظام کے خلاف احتجاج کیا۔ لیکن اس احتجاج کو بھی پراسرار طریقوں سے بند کرانے کی کوشش کی گئی۔ آج بھی یہی کوشش ہے اور اس بات کی طرف قادیان کے ارباب اقتدار اور خود جناب مرزابشیر الدین محمود احمد ہر گز آمادہ اور تیار نہیں ہوتے کہ قادیان کے موجودہ نظام کو درست کیا جائے اور جماعت میں وہ روح قائم کی جائے جو مسیح موعود قائم کرانا چاہتے تھے۔ قادیان کے ارباب بست وکشاد اور خود جناب مرزابشیر الدین محمود احمد کی اس تغافل کیشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت میں کئی دفعہ انتشار پیدا ہوا اور ابھی اس انتشار میں کمی پیدا نہیں ہوئی۔ بلکہ یہ انتشار ایک خوفناک انقلاب کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔