احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
۴… ’’آپ کے (یعنی حضرت مسیح کے) ہاتھ میں سوا مکروفریب کے اور کچھ نہیں تھا۔‘‘ یہ بھی اسی حق بات کے ذکر میں ہے۔ یعنی پہلے کہہ چکے ہیں کہ حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔ اب کہتے ہیں کہ جوکچھ ہوا اور جسے معجزہ کہا گیا وہ حضرت عیسیٰ کا مکروفریب تھا۔ (نعوذ باﷲ) یہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہجو تھی اور ناملائم صفات ذمیمہ بیان کئے۔ اس کے بعد مرزاقادیانی کی مہذب گالیاں ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں: ۵… آپ کا (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا) خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔ تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناکار اور کسبی عورتیں تھیں۔ جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا۔ مگر شاید یہ بھی خدائی کے لئے ایک شرط ہوگی۔ آپ کا کنجریوں سے میلان اور صحبت شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے۔ ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری (کسبی) کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگاوے اور زناکاری کی پلید کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے اور اپنے بالوں کو اس کے پیروں پر ملے۔ سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے۔ مرزاقادیانی کی یہ گالیاں اور بدگمانیاں ایک عظیم المرتبت نبی کی نسبت لائق ملاحظہ ہیں اور ان گالیوں کے بعد آخری جملہ میں اپنی دانشمندی اور ذاتی خیال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت ظاہر کر کے مخاطبین کو متنبہ کرتے ہیں کہ سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان جو کسبیوں سے اس طرح میل جول رکھے وہ کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے۔ اب حق پسند حضرات اسے بخوبی معلوم کر سکتے ہیں کہ جس طرح نمبر۴ کے جملہ سے نہایت صاف طور سے معلوم ہوا تھا کہ مرزاقادیانی حضرت مسیح کی نسبت جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ حق بات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اسی طرح اس آخری جملہ سے معلوم ہورہا ہے کہ جو کچھ مرزاقادیانی لکھ رہے ہیں۔ وہ ان کا ذاتی خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کسبیوں سے ناجائز میل جول رکھتے تھے اور ان کا حسب ونسب دونوں خراب وناگفتہ بہ تھا۔ (استغفراﷲ) یہ ان کے دھریہ ہونے کی دوسری دلیل ہے۔ کوئی مسلمان ایسا خیال نہیں کرسکتا۔ اب ذرا غور کیجئے کہ یہاں مرزاقادیانی نے ایک عظیم المرتبت نبی کو چھ الزام دئیے ہیں۔ ۱… مسیح کو جھوٹ بولنے کی عادت تھی۔ ۲… حق یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔