احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
دیتے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اپنے خیال کے بموجب تحقق شدہ امر بیان کرتے ہیں اور ایک نبی عظیم المرتبت پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہیں جھوٹ بولنے کی عادت تھی۔ یعنی یہ نہیں کہ اتفاقیہ ایک دو جھوٹ بولے ہوں۔ بلکہ جھوٹ بولنے کی انہیں عادت بیان کرتے ہیں۔ خدا جانے اپنی عمر میں کتنے جھوٹ بولے ہوںگے اور پھر اس سے خدائے تعالیٰ پر یہ الزام کہ اس نے ایسے جھوٹے کو اپنا رسول بناکر بھیجا تھا۔ یہ وہ الزام ہے کہ جس کی وجہ سے خدا اور رسول کی تمام باتوں سے اعتبار جاتا رہتا ہے اور شریعت الٰہی لائق توجہ نہیں رہتی۔ حضرت مسیح علیہ السلام پر یہ بدگمانی اس مشہور قول کی بنیاد پر ہے۔ یعنی ’’المرٔ یقیس علیٰ نفسہ‘‘ انسان دوسرے کی حالت کو اپنے اوپر قیاس کرتا ہے۔ یعنی جیسا یہ خود ہے دوسرے کو بھی ویسا ہی سمجھتا ہے۔ مرزاقادیانی کو دعویٰ نبوت وامامت ہے اور بااینہمہ جھوٹ بولنے میں نہایت مشاقی ہے اور بے تأمل اعلانیہ جھوٹ کا انبار لگادیتے ہیں۔ چنانچہ ان کے بیشمار جھوٹ دکھائے گئے ہیں۔ یہ ان کے لامذہب ہونے کی پہلی دلیل ہے۔ دوسرا قول اسی (ضمیمہ انجام آتھم ص۱۶، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰) میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت لکھتے ہیں۔ ۲… ’’عیسائیوں نے بہت سے معجزات آپ کے لکھے ہیں۔ مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔‘‘ بھائیو! مرزاقادیانی کے اس جملہ نے نہایت صفائی سے بتادیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت جو کچھ انہوں نے لکھا ہے۔ وہ ان کے نزدیک حق بات ہے۔ صرف الزام ہی نہیںجیسا کہ مرزائی حضرات کہہ رہے ہیں۔ (یہ خوب یاد رہے) یہاں یہ بات بھی لائق یاد رکھنے کے ہے کہ مرزاقادیانی کی یہ حق بات قرآن مجید کے صریح خلاف ہے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: ’’واتینا عیسیٰ ابن مریم البینات‘‘ یعنی ہم نے عیسیٰ بن مریم کو معجزات دئیے۔ پھر (ضمیمہ انجام آتھم ص۷، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱) میں لکھتے ہیں۔ ۳… ’’ممکن ہے کہ آپ نے معمولی تدبیر کے ساتھ کسی شب کور وغیرہ کو اچھا کیا ہو یا کسی اور بیماری کا علاج کیا ہو۔‘‘ یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزے سے کوئی مریض کسی قسم کا اچھا نہیں ہوا۔ اگر ہوا تو تدبیر اور علاج سے ہوا۔ حق بات یہی ہے۔یہ قول قرآن مجید کی دوسری آیت کے صریح خلاف ہے۔ پھر صفحہ مذکور میں لکھتے ہیں۔