احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
نامہ لکھ دیا۔ سراقہ یہ نامہ لے کر واپس چلاگیا اور راستہ میں جو لوگ اسے ملتے گئے۔ انہیں بھی واپس کرتا رہا۔ یہ سراقہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوگیا۔ قافلہ عسقان سے ہوتا ہوا روحج کی راہ سے قدید تک پہنچا۔ جب مقام العرج آیا تو ایک اونٹ تھک کر بیٹھ گیا اور چلنے کے قابل نہ رہا۔ اس لئے قبیلہ اسلم کے ایک رکن اوسی بن حجر سے اونٹ لیاگیا۔ اوسی نے حفاظت کے لئے ایک غلام بھی ساتھ کر دیا۔ ۸روز کے بعد یعنی ۱۲؍ربیع الاوّل کو جب آفتاب نصف النہار پر تھا۔ تو یہ قابل احترام قافلہ قباء کے قریب پہنچا۔ یہ مقام مدینہ طیبہ سے دو میل پر واقع ہے اور اسے شہر مدینہ کی آبادی سے ملحق سمجھا جاتا ہے۔ چونکہ مدینہ میں آپ کی آمد آمد کا چرچا تھا۔ اس لئے انصار ومہاجرین صبح سے لے کر دوپہر تک قبا میں بیٹھے رہتے اور جب دھوپ ناقابل برداشت ہوجاتی تو اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آتے۔ آخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ حضور اکرمﷺ کا قافلہ آپہنچا۔ سب سے پہلے ایک یہودی نے دور سے تین شتر سواروں کو دیکھا۔ اس نے خیال کیا کہ یہ وہی قافلہ ہے۔ جس کے انتظار میں مسلمان چشم براہ تھے۔ اس نے کوٹھے پر چڑھ کر صدا دی۔ اے دوپہر کو آرام کرنے والو عربو تمہارا مطلوب اور خوش قسمتی کا باعث آگیا ہے۔ اس آواز سے مدینہ طیبہ میں ہلچل پڑ گئی۔ مسلمان مسرت کے نعرے لگاتے ہوئے گھروں سے نکلے۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے دور سے دیکھا کہ ایک ہجوم آرہا ہے۔ آپ کے دل میں خیال گذرا کہ کہیں لوگوں کو حضورﷺ سید الانبیاء کے پہچاننے میں دقت نہ ہو۔ اس لئے آپ نے اپنی چادر سے فرق رسالت پر سایہ کر دیا۔ تاکہ آقا اور غلام میں تمیز ہوسکے۔ جب حضورﷺ ہجوم کے قریب پہنچے تو چھوٹی چھوٹی لڑکیاں جوش مسرت میں گیت گانے لگیں۔ جس کا ترجمہ یہ ہے۔ ہم پر چاند نے رخصت کی گھاٹیوں سے طلوع کیا ہے جب تک کوئی دعاء کرنے والا ہے ہم پر شکریہ واجب ہے اے ہم میں مبعوث ہونے والے رسولؐ آپ وہ حکم لے کر آئے ہیں جس کی تعمیل ہم پر ضروری ہے حضور سید المرسلینﷺ اور آپ کے ساتھی دوشنبہ کو قباء میں داخل ہوئے اور جمعہ تک وہیں قیام پذیر رہے۔ اسی اثناء میں حضرت علیؓ بھی آپہنچے۔ حضور اکرمﷺ نے قباء میں ایک مسجد کی بنیاد بھی رکھی۔ جو اسلام کی سب سے پہلی مسجد