احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
دیا کرتی تھیں۔ عبداﷲ بن ابوبکرؓ دن بھر کفار کی سرگرمیوں کا مطالعہ کرتے اور رات کو تمام حالات حضورﷺ کے گوش گذار کر کے چلے آتے۔ تیسرے دن عبداﷲ بن ابوبکرؓ کی معرفت حضورﷺ کو اطلاع ملی کہ کفار مکہ کے جوش کا دریا رفتہ رفتہ اتر رہا ہے۔ اب ساکنان ثور نے سفر کی تیاری شروع کی۔ حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ نے عبداﷲ بن اریقط کو پیغام بھیجا کہ اونٹنیاں لے آئے اور یہ شخص اگرچہ مسلمان نہ تھا لیکن بھروسے کے قابل تھا۔ اس لئے حضرت صدیق اکبرؓ نے اسے رازدار سفر بنا رکھا تھا۔ اب ریقط دونوں اونٹنیاں اور اپنا اونٹ لے کر کوہ ثور کے دامن میں پہنچ گیا۔ دونوں مسافر غار سے نکلے تو دونوں اونٹنیاں حاضر تھیں۔ ایک پر حضورﷺ سوار ہوئے۔ اس اونٹنی کا نام غضبا تھا اور دوسری پر حضرت صدیق اکبرؓ اور آپ کے خادم عامر بن فہیرہ بیٹھ گئے۔ حضرت اسمائؓ نے قافلہ کو خدا حافظ کہا اور یہ چل پڑے۔ روانگی سے پہلے حضورﷺ نے دور سے شہر مکہ پر نظر ڈالی اور حسرت کے ساتھ فرمایا کہ: ’’اے مکہ مجھے تمام شہروں کی نسبت تجھ سے زیادہ محبت ہے۔ مگر تیرے باشندوں نے مجھے رہنے نہ دیا۔‘‘ رات ہوچکی تھی۔ تاریکی کی وجہ سے کوئی چیز دکھائی نہ دیتی تھی۔ لیکن یہ گرم رفتار قافلہ دشت پیمائی کرتا ہوا بڑھتا گیا۔ دوسرے دن یعنی یکم ربیع الاوّل کو جب دوپہر کی دھوپ چنگاریاں برسا رہی تھی تو ام معبد کا خیمہ نظر پڑا۔ یہ بڑھیا بہت زیادہ رحم دل تھی۔ اس نے مسافروں کے پانی پلانے کے لئے جنگل میں سبیل لگارکھی تھی۔ قافلہ والوں نے یہاں کچھ دیر آرام کیا اور بکری کا دودھ پینے کے بعد چل پڑے۔ ابھی چند ہی قدم چلے ہوں گے کہ پیچھے سے ایک شخص گھوڑے پر تیز رفتار آتا ہوا دکھائی دیا۔ یہ سراقہ بن مالک تھا جو عرب کا بہت بڑا بہادر نوجوان تھا۔ وہ سو اونٹ انعام حاصل کرنے کے لئے حضورﷺ کو گرفتار کرنا چاہتا تھا۔ لیکن حسن اتفاق دیکھئے۔ جب وہ حضورﷺ پر ہاتھ ڈالنے کا ارادہ کرتا تھا تو اس کا گھوڑا ٹھوکر کھا کر گر پڑتا تھا۔ جب اسے دو تین بار اس حادثہ کا سامنا ہوا تو ہوش ٹھکانے آگئے۔ چلّا کر کہنے لگا۔ ’’محمد(ﷺ) میری بات تو سن لیجئے۔‘‘ حضورﷺ نے اونٹنی ٹھہرالی اور فرمایا کہو سراقہ کیا کہتے ہو؟ اس نے عرض کیا میں آپ کو گرفتار کرنے آیا تھا۔ لیکن اس حرکت پر نادم وپشیمان ہوں۔ معاف کیجئے میں واپس جاتا ہوں۔ لیکن مجھے امان نامہ لکھ دیجئے۔ حضور سرور دوعالمﷺ نے یہ بات مان لی اور آپ کے ارشاد پر عامر ابن فہیرہ نے اونٹنی پر بیٹھے ہوئے امان