احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
صدیق اکبرؓ داخل ہوئے۔ آپ نے غار کو صاف کیا۔ جہاں کہیں سوراخ نظر آیا۔ اسے اپنے کپڑوں کی دھجی سے بند کیا۔ جب غار قیام گاہ بننے کے قابل ہوگیا تو حضورﷺ کو بھی ساتھ لے گئے اور یہ آفتاب ومہتاب متواتر تین شبانہ روز اس تاریک خلوت کدہ میں مقیم رہے۔ دوسری طرف کفار مکہ کو انعام کا لالچ تڑپارہا تھا۔ وہ سراغ رسانی کے فن سے بھی واقف تھے۔ اس لئے نقش قدم کے نشانات پر غار ثور کے دہانہ تک پہنچ گئے۔ اب انہوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ کیونکہ یہاں سے آگے قدم کے نشان نہ تھے اور ان کی متجسس نظریں غار کے چاروں کناروں سے ٹکرا ٹکڑا کر واپس آتی رہیں اور حضورﷺ کا کہیں پتہ نہ چلتا تھا۔ وہ حیرت واستعجاب کے بحرذخار میں غوطے کھانے لگے اور حیرت کے ساتھ یہ کہنا شروع کیا۔ معلوم ہوتا ہے کوئی طلسم ہے اور محمدﷺ آسمان پر چلے گئے ہیںَ اتنے میں ایک نے کہا ذرا جھانک کر غار کے اندر تو دیکھو دوسرے نے مذاقیہ انداز میں کہا! ہوش میں آو اس اندھیرے غار میں کون جاسکتا ہے؟ تیسرا بولا وہ دیکھو غار کے منہ پر مکڑی کا جالا تنا ہوا ہے۔ اگر کوئی اس میں داخل ہوتا تو جالا محفوظ رہ سکتا تھا؟ تیسرا بولا وہ دیکھو وہاں تو کبوتر اڑا اور اس کے انڈے بھی نظر آرہے ہیں۔ اب کفار کے سامنے مایوسی ونامرادی کے سوا کچھ نہ تھا۔ وہ حیرت ویاس کی دوگونہ مصیبت کا رنج لے کر واپس لوٹے۔ جب کفار مکہ غارثور کے دہانہ کے پاس کھڑے ہوکر یہ سب باتیں کر رہے تھے تو غارکے اس قدر قریب تھے کہ ان کے پاؤں حضور اکرمﷺ اور آپ کے رفیق سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو نظر آرہے تھے۔ اس وقت سیدنا صدیق اکبرؓ نے عرض کیا کہ حضورﷺ، کفار آگئے۔ آپؐ نے جواب دیا۔ ’’لا تخرن ان اﷲ معنا‘‘ یعنی خوف نہ کرو۔ ہمارے ساتھ اﷲ ہے۔ صدیق اکبرؓ نے پھر دوبارہ آنحضرتﷺ کی توجہ کفار کی طرف مبذول کرائی۔ آپؐ نے فرمایا تو نے ان دونوں کو کیا سمجھا ہے۔ جن کے ساتھ تیسرا خدا ہے۔ حضرت صدیق اکبرؓ حیرت افزاء طور پر فہیم، عقیل اور دوراندیش وتجربہ کار تھے۔ آپ نے ان مجبوریوں اور قیود کے باوجود ہر قسم کے انتظامات مکمل کر رکھے تھے۔ چنانچہ آپ کی ہدایت کے مطابق عامر بن فہیرہ جو آپ کا غلام تھا۔ دن بھر تو بکریوں کا ادھر ادھر چراتا رہتا اور رات ہوتے ہی ریوڑ کو غار ثور کے قریب لے آتا اور ان دونوں بزرگوں کی خدمت میں دودھ پیش کیا کرتا تھا۔ اسماء بنت ابوبکرؓ کھانا تیار کر کے رات کے وقت نہایت احتیاط اور رازداری کے ساتھ غارثور میں پہنچا