احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
حضورﷺ جب مکان سے باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ کفار شمشیر بکف مکان کے گرد گھوم رہے ہیں۔ آپؐ نے ایک مشت خاک پر سورۂ یٰسین کی پہلی آیتیں ’’لا یبصرون‘‘ تک پڑھیں اور اس خاک پر دم کر کے وہ خاک شاہت الوجوہ کہہ کر کفار کی طرف پھینک دی۔ کرشمہ قدرت دیکھئے کہ درجنوں آنکھیں باب توبہ کی طرف کھلی ہونی کے باوجود حضورؓ والتسلیمات کو دیکھ نہ سکیں۔ آپؐ حضرت صدیق اکبرؓ کے مکان پر پہنچے اور انہیں ساتھ لے کر شہر سے باہر نکلے اور دونوں مسافر شہر سے چار میل کے فاصلہ پر کوہ ثور تک پہنچے۔ دونوں نے غار ثور میں قیام کیا۔ اب حضرت مولائے کائنات علی کرم اﷲ وجہہ کا حال سنئے! جب رات کا دامن تاریک چاک ہوگیا تو آپ نماز کے لئے اٹھے۔ دروازہ سے باہرہی نکلے تھے کہ کفار نے آپ کو پکڑ لیا۔ انہیں حیرت ہوئی کہ رات کو جس سوئے ہوئے انسان کو محمد(ﷺ) سمجھتے رہے وہ صبح ہوتے ہی علی مرتضیٰ (کرم اﷲ وجہہ) کی شکل میں نمودار ہوا۔ اس لئے ان کے غضب کی آگ اور بھی بھڑک اٹھی۔ انہوں نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ محمدﷺ کہاں گئے؟ انہوں نے جواب دیا کہ پہرہ تو تم رات بھر دیتے رہے اور پوچھتے ہو مجھ سے۔ یہ تو تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ محمدﷺ کہاں گئے؟ یہ جواب سنتے ہی چند کافر مشتعل ہوئے اور انہوں نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے طمانچے مارے اور آپؓ کو پکڑ کر بٹھالیا۔ لیکن جب سورج پوری طرح چڑھ آیا تو انہیں خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں بنوہاشم انتقام کی تلوار نیام سے نہ نکال لیں۔ اس لئے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو رہا کردیا گیا۔ آپ نے تمام امانتیں حقداروں کو پہنچا دیں۔ حقیقتاً اسی کام کے لئے حضرت علیؓ کو مکہ میں چھوڑا گیا تھا۔ کفار یہاں سے مایوس ہوکر حضرت صدیق اکبرؓ کے مکان پر پہنچے۔ دروازہ پر دستک دی۔ حضرت اسمائؓ باہر نکلیں اور ابوجہل نے پوچھا لڑکی سچ بتا تیرا باپ کہاں گیا۔ لڑکی نے جواب دیا مجھے خبر نہیں۔ یہ سنتے ہی ابوجہل نے اس بیدردی سے طمانچہ مارا کہ اسماء کے کان کی بالی ٹوٹ کر گرپڑی۔ اس کے بعد کفار مکہ آندھی کی طرح پھیل گئے۔ مگر حضورﷺ کا کہیں پتہ نہ چلا۔ آخر اعلان کیاگیا جو شخص محمدﷺ کو پکڑ کر لائے گا اسے سواونٹ انعام دیا جائے گا۔ اس انعامی اعلان نے بہت سے لوگوں کو متأثر کیا اور وہ آنحضرتﷺ کی تلاش میں مارے مارے پھرنے لگے۔ اب اس مقدس قافلہ کا حال سنئے! جو غار ثور کے قریب ہے۔ غار میں سب سے پہلے